دوسرے مجاہدین اور جاں نثار شہادت کے اس رتبہ سے کنی کترا کر گزر سکتے ہیں ؟ ہرگز بھی نہیں اور جن کو جاں عزیز ہو انہیں اس راستے پر قدم رکھنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حادثۂ فاجعہ امت مسلمہ کو یہ درس دیتا ہے کہ وہ قاتلان حسین کے عقیدہ و عمل اور دجل و تلبیس سے ہوشیار رہیں ۔
کتاب وسنت سے سچی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے اندر حسینی قربانی کی روح کو ہر وقت زندہ رکھیں ، اس مصیبت عظمی پر صبر کریں اور اس پر رب تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں ۔
یہ دنیا جائے فنا ہے، یہاں کسی کو بقا اور قرار نہیں جیسا کہ خود جناب حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’اگر یہ دنیا اس لائق ہوتی کہ اسے کسی کے لیے باقی رکھا جاتا یا کوئی اس کے لیے باقی رہتا تو وہ رب کے پیغمبر ہیں ۔ مگر یہ کہ یہ دنیا گرتا گھر ہے اس کی ہر نعمت خراب ہونے والی اور ہر خوشی ختم ہونے والی ہے۔‘‘
جب بادشاہ اشبیلیہ معتمد بن عباد اندلسی کی حکومت جاتی رہی اور وہ مغرب کے شہر ’’اغمات‘‘ میں پس دیوار زنداں کر دیا گیا تو بدلتے زمانہ اور دگرگوں ہوتے حالات میں گہری نگاہ ڈالنے کے بعد حسرت سے یہ شعر پڑھنے لگا:
سیسلی النفس عما فات
علمی بان الکل یدرکہ الفناء
’’میں اپنے ہاتھوں سے نکل جانے والی حکومت پر اپنے دل کو یہ جان کر تسلی دیتا ہوں کہ فنا تو ایک دن سب کو آ کر رہے گی۔‘‘
پھر یہ شعر پڑھا:
نعیم و بؤس ذا لذلک ناسخ
و بعدہما نسخ المنایا الامانیا
’’نعمتیں اور تنگیاں یہ آتی جاتی رہتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کو مٹاتی رہتی ہیں پھر موت آ کر سب تمناؤ ں کا خاتمہ کر دیتی ہے۔‘‘[1]
بس یہی دنیا ہے، یہ چل چلاؤ کا میلہ ہے، یہاں خویش اور وطنوں کی جدائیوں کے صدمے سہنے پڑتے ہیں ۔ خوش نصیب وہ ہے جسے حسن خاتمہ نصیب ہو گیا۔ رب کے حضور دست سوال دراز ہے کہ وہ ہمیں
|