حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پرسا دے لیا کرتا ہوں ۔‘‘[1]
٭… سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اگر حسین رضی اللہ عنہ خروج نہ کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔‘‘
٭… امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں کہ یہی حضرت ابن عمر، ابو سعید خدری، حضرت ابن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہم اور ایک جماعت کی رائے تھی اور انہوں نے اس بابت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بات بھی کی تھی۔‘‘[2]
٭… حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کرنے کی بابت مجھ پر غالب آ گئے۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ اپنے بارے میں اللہ سے ڈریے، گھر بیٹھے رہیے اور اپنے امام کے خلاف خروج مت کیجیے۔‘‘[3]
٭… حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
’’خروج کرنے کی بابت حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہم پر غالب آ گئے۔ میری عمر کی قسم! انہوں نے اپنے والد اور بھائی سے عبرت حاصل کی تھی۔ لوگوں کی بے وفائی اور عدمِ اخلاص کو دیکھ کر ان کے لیے مناسب تو یہی تھا کہ وہ زندگی بھر کسی جگہ کے لیے حرکت نہ کرتے اور اس مصلحت میں داخل ہو جاتے جس میں دوسرے لوگ داخل ہوئے تھے کہ جماعت میں خیر ہوتی ہے۔‘‘[4]
٭… حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’میں نے حسین رضی اللہ عنہما سے بات کی، میں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ سے ڈریے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مت لڑائیے، اللہ کی قسم! جو کچھ آپ کرنے چلے ہیں اس پر لوگ آپ کی تعریف نہ کریں گے، مگر انہوں نے میری بات نہ مانی۔‘‘[5]
٭… حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’مجھے حسین رضی اللہ عنہما کے خروج کی خبر ملی۔ میری مقام مَلَل[6] پر ان سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے اللہ
|