نے آپ کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا اور انہیں مکہ میں ٹھہرے رہنے کو کہا۔ ان کوفیوں نے سیّدنا علی اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو جو غداریاں اور عیاریاں کی تھیں ان حضرات نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اس سب کو ذکر کیا۔‘‘[1]
لیکن سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اکابر کی بات نہ مانی، کیونکہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یہ سمجھتے تھے کہ وہ دلیل پر ہیں ، وہ یہ کہ اہل کوفہ نے ان کی بیعت کر لی ہے۔ اہل کوفہ کا ان سے یہ رابطہ کوئی آج کا نہ تھا۔ اس کا آغاز سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات سے ہو چکا تھا اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تو اس رابطہ میں بے پناہ زور آ گیا تھا۔ گویا اہل کوفہ کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ غیر منقطع رابطہ کب سے قائم تھا اور وہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کب سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ انہیں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ بے پناہ عقیدت و محبت ہے اور وہ ان کی خاطر جان و مال قربان کرنے سے کبھی دریغ نہ کریں گے۔
چنانچہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی اہل کوفہ کا ایک وفد جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تھا اور آپ کو اس بات کی دعوت دی کہ آپ معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت ترک کر دیں تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں اور یہ بھی کہا کہ ہمیں آپ کی اور آپ کے بھائی کی رائے معلوم ہے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہ جواب دیا: ’’مجھے امید ہے رب تعالیٰ میرے بھائی کو خوں ریزی روکنے اور بند کرنے کی نیت پر نیک اجر دے گا اور مجھے ظالموں سے جہاد کرنے کی محبت پر نیک اجر دے گا۔‘‘[2]
کچھ لوگوں نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بھائی محمد بن حنفیہ سے بھی رابطہ کیا اور انہیں کوفہ خروج کر آنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا۔ محمد بن حنفیہ نے اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو آ کر سارا قصہ گوش گزار کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ: یہ لوگ ہمارے خونوں کے پیاسے ہیں ۔ یہ سن کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بے حد مغموم و مضطرب ہو گئے، وہ اس بات کا فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ ان کے ساتھ جائیں یا نہ جائیں ۔[3]
پھر جب لوگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کر لی تو یزید کی بیعت نہ کرنے والوں میں ایک سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ اہل کوفہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دَور میں بھی ان کے خلاف خروج کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ خط و کتابت رکھتے تھے لیکن سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اس بات سے ہمیشہ انکار کیا تھا۔[4]
|