سرعت کے ساتھ ادل بدل رہے تھے اور پیش منظر نہایت برق رفتاری کے ساتھ بدلتا چلا جا رہا تھا کہ کسی کی نگاہ اس پر ٹھہرنے نہ پا رہی تھی، ہوش و خرد کو قابو کر لینے والے ان واقعات میں غور و تدبر اور فکر و نظر کی گنجائش کا نکلنا ناممکن سا ہو گیا تھا۔ شاید ان تمام متغیر اور تبدیل ہوتے حالات کے پیچھے اہل کوفہ کا ہاتھ تھا اور یقینا تھا۔ جن کی پوری کوشش تھی کہ اس سے قبل کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یزید کی بیعت کر لیں اور ان پر حقائق منکشف ہوں ، جناب حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سازش کے جال میں بری طرح جکڑ لیا جائے۔ چنانچہ کوفہ کے اوباشوں نے مسلم بن عقیل کی نصرت کا غل مچا دیا۔ جب مسلم بن عقیل کو یقین ہو گیا کہ اہل کوفہ کی کثرت ان کی مدد پر آمادہ ہے تو انہوں نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کوفہ چلے آنے کا خط لکھ دیا۔ جس کو دیکھ کر سازشیوں کو یقین ہو گیا کہ ان کی سازش کامیابی کی طرف گامزن ہو گئی ہے۔ چنانچہ اب انہوں نے اہل کوفہ کی صفوں میں افواہیں اڑانی شروع کر دیں جس سے ایسی بد دلی پھیلی کہ ہر ایک اپنے اپنے گھر جا گھسا۔ جبکہ اس سے قبل اہل کوفہ کی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ طویل خط و کتابت ہو چکی تھی اوران کے مابین مراسلت پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ یہ وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مسلم بن عقیل کا بھرپور استقبال کیا تھا اور انہیں اپنی مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ان لوگوں کے اسی ولولہ اور جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے ہی تو مسلم بن عقیل نے خط لکھ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ چلے آنے کی دعوت دی تھی اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تمام استفساری خطوط کا زبردست تسلی آمیز جواب لکھ بھیجا تھا۔
مسلم بن عقیل کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے اس بات کا مطالبہ کرنا کہ وہ اپنے اہل سمیت کوفہ چلے آئیں ، اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں ان غدار کوفیوں کی باتوں پر پورا یقین ہو گیا تھا۔ لیکن ان کوفیوں نے مسلم بن عقیل سے بدعہدی اور غداری کرتے ذرا دیر نہ لگائی اور انہیں بے یار و مددگار باغیوں کے حوالے کر دیا۔ حتیٰ کہ خود اس کوفی نے یہ شرم ناک حرکت کی تھی جس نے انہیں اپنی مدد ونصرت اور تائید و حمایت کا بھرپور یقین دلایا۔
ادھر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو مسلم بن عقیل کے ایسی کسمپرسی کی حالت میں مارے جانے کا مطلق علم نہ تھا۔ بلکہ آپ جلد از جلد کوفہ روانہ ہونے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے تاکہ تاخیر نہ ہو جائے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جب کوفہ روانہ ہونے کا پختہ عزم کر لیا تو ایام ترویہ میں مسلم بن عقیل کے قتل سے ایک دن قبل مکہ سے روانہ ہوئے۔ یاد رہے کہ مسلم بن عقیل یوم عرفہ کو قتل ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے خروج کے ارادوں کو سن کر بے حد غم زدہ ہو گئے اور نہیں آپ پر بے حد ترس آیا۔ لوگوں نے آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کی ازحد کوشش کی۔ اہل رائے اور ارباب محبت و عقیدت
|