’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ یہ دعا پڑھتا ہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اے اللہ! مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما تو رب تعالیٰ اسے اس مصیبت میں اجر بھی عطا فرماتے ہیں اور اس کا بہتر بدل بھی عنایت فرماتے ہیں ۔‘‘[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے گال پیٹے، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کی طرف بلایا۔‘‘[2]
افسوس کہ یہی وہ افعال ہیں جن کو عاشوراء کے دن بڑے شوق سے ادا کیا جاتا ہے۔ اب ایک طرف تو یہ روافض سنت کے مخالف ہیں لیکن جب اس کے ساتھ ان کے وہ ظلم بھی ملا لیے جائیں جو یہ امت مسلمہ پر ڈھاتے ہیں تو ان کا جرم اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ جن میں سرفہرست حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ پر لعن طعن کرنا اور ان پر سب شتم کرنا ہے۔ جیسا کہ یہ لوگ قتل حسین کی یاد کی آڑ میں کیا کرتے ہیں ۔
اس سب پر مستزاد یہ کہ یہ اعدائے صحابہ ہمیشہ سے دشمنانِ اسلام یہود و ہنود اور کفار و نصاری کے دست راست اور کارپرداز رہے ہیں جن کی زندگیوں کا مقصد ہی اسلام اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنا ہے یہ رافضی ان کا آلہ کار بن کر جیتے ہیں ۔ غرض امت کتاب و سنت کے خلاف ان کے جرائم اور گناہوں کی فہرست بے حد طویل ہے اور یہ سب کچھ وہ علی الاعلان زبانِ طعن دراز کر کے کرتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے والوں کا کردار کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا۔ آج یہ لوگ کتاب و سنت کو ختم کرنے کی علامت بن چکے ہیں ۔ آج جو بھی، جس سطح پر بھی ان کے کام آئے گا بلاشبہ وہ انہی میں سے ہے اور وہ کتاب و سنت کو مٹانے میں ان قاتلانِ حسین کا مددگار ہے!
اے اللہ! تو ہمیں اپنا مخلص بندہ بنا لے اور جو بھی اس کتاب کو پڑھے اسے کتاب و سنت کا اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سچا خادم بنا لے، اسے ان لوگوں میں سے کر دے جو اعدائے صحابہ سے بری ہیں اور ہمیں روزِ قیامت اپنے پیغمبر کی شفاعت و معیت نصیب فرما بے شک تو اس پر قادر ہے اور تو ہی دعا قبول کرنے کے زیادہ لائق ہے۔
|