Maktaba Wahhabi

375 - 441
کی بابت بعض خارقِ عادت امور کو ذکر کرتے ہیں جو سراسر اباطیل و اکاذیب ہیں ۔ جن کو اعدائے صحابہ نے لوگوں کو سنت سے بے راہ کرنے کے لیے پھیلا رکھا ہے۔ امت مسلمہ کے دلوں میں آل بیت کی ایک خاص محبت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں وصیت فرمائی ہے: ’’میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں ‘‘ اور یہ تین بار ارشاد فرمایا۔‘‘[1] علامہ قرطبی لکھتے ہیں : ’’یہ وصیت اور یہ عظیم تاکید اس بات کو مقتضی ہے کہ اہل بیت کا احترام، ان کی تعظیم و توقیر اور محبت واجب ہے جس سے تخلف کی کسی کو اجازت نہیں ۔‘‘[2] اہل بیت کے بارے میں اس وصیت کو سمجھنے کا حق سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ادا کیا۔ چنانچہ وہ آل بیت کا بے حد احترام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی ان کے اکرام و احترام کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت صدیق کا قول ہے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اہل بیت میں ڈھونڈو۔‘‘[3] یہ نبوی وصیت اس بات کے باطل ہونے کی دلیل ہے اور اشارہ ہے کہ خلافت کا حق آل بیت کے سوا کسی کو نہیں ۔ جیسا کہ وصیت اور وصی کے قصہ تراشنے والوں نے گھڑ رکھا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ خلافت دوسروں کے پاس جائے گی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اہل بیت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوتا کہ خلافت اہل بیت کو ملنی ہے تو انہیں اس بات کی وصیت فرماتے کہ وہ امت کا خیال رکھیں ۔ بلاشبہ یہ بے حد باریک پہلو ہے جو اعدائے صحابہ کے اس گمراہانہ پروپیگنڈا کا بھیجا اڑا دیتا ہے جو انہوں نے خلافت کے بارے میں اڑا رکھا ہے۔ بے شک قتل حسین رضی اللہ عنہ امت کے لیے بے حد غم و اندوہ کی بات ہے لیکن مسلمان ہر مصیبت کے وقت وہی کرتے ہیں جس کا رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۵۵-۱۵۷)
Flag Counter