ان کے لیے کسی کے بھی خون سے ہاتھ رنگنا کوئی مشکل کام نہ تھا اور ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ ان کوفی رافضیوں نے بلاتردد آل بیت رسول کے متعدد چراغ ایک ہی دن میں گل کر دئیے۔ اس لیے امت مسلمہ کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ شاید اس سے ہم اپنا حال درست کر سکیں ۔ لیکن آج ہے کوئی جو صحیح تاریخ سے سب سیکھے۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ترویہ کے دن مکہ سے روانہ ہوئے۔ بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو روکنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ جن میں سیّدنا ابن عمر، سیّدنا ابن عباس، سیّدنا ابن زبیر، سیّدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہم جیسے رفیع الشان اور جلیل القدر صحابہ کرام کے اسمائے گرامی آتے ہیں ۔ جبکہ خود آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے بھی روکنے اور سمجھانے کی بے حد کوشش کی۔ لیکن سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کا عزمِ مصمم کر چکے تھے، اسی لیے آپ نے کسی کی بھی بات کو نہ مانا۔
گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلم بن عقیل نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر مطلع کیا کہ کوفہ میں آپ کے بے شمار مؤیدین ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی ترغیب بھی دی کہ بس اب جلدی سے چلے آئیے۔ چنانچہ خط ملتے ہی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے چلنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ لیکن ابھی آپ کوفہ نہ پہنچے تھے کہ اثنائے طریق میں آپ کو مسلم بن عقیل کا دوسرا خط ملا جس میں صاف لکھا تھا کہ کوفہ مت آئیے اور جدھر سے آئے ہیں ادھر ہی کو لوٹ جائیے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
’’اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیے تاکہ یہ کوفی آپ کو دھوکہ نہ دے سکیں ۔ یہ آپ کے والد ماجد کے وہی ساتھی ہیں جن کے بارے میں ان کی شدید تمنا تھی کہ موت یا شہادت آ کر انہیں ان لوگوں سے جدا کر دے۔ اہل کوفہ نے میرے اور آپ دونوں کے ساتھ دروغ بیانی سے کام لیا ہے اور دروغ گو کی کوئی رائے نہیں ہوا کرتی۔‘‘[1]
جب مسلم بن عقیل گرفتار کر لیے گئے اور ان کے قتل کر دئیے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو انہوں نے عمر بن سعد سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ ایک وفد بھیج کر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ بیتنے والے جملہ واقعات کی خبر دے دیں ۔ چنانچہ مسلم بن عقیل نے ابن زیاد سے یہ کہا: ’’مجھے وصیت کرنے دیجیے۔‘‘
ابن زیاد نے کہا ٹھیک ہے، مسلم نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا:
’’مجھے تم سے ایک کام ہے، تیرے اور میرے درمیان قرابت داری ہے۔‘‘
پھر عمر بن سعد کے پاس جا کر کہا: ’’اے صاحب! یہاں تمہارے اور میرے سوا تیسرا کوئی قریشی نہیں اور حسین( رضی اللہ عنہ ) تم لوگوں کے پاس پہنچنے والے ہیں ۔ ان کی طرف پیغام بھیج دو کہ وہ لوٹ
|