اہل عراق کی متلون اور غیر مستقل فطرت کے بارے میں جانتے تھے، یہ وہی لوگ تو تھے جنہوں نے اس سے قبل امیر المومنین کے ساتھ کئی رنگ بدلے تھے۔ حتیٰ کہ امیر المومنین کی شدید تمنا تھی کہ موت یا شہادت انہیں ان کوفیوں سے جدا کر دے۔ مسلم بن عقیل کے سامنے کوفیوں کی حسن( رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ کی جانے والی بدترین خیانت بھی تھی جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالآخر انہوں نے امر خلافت معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ جب حسین( رضی اللہ عنہ ) نے انہیں کوفیوں کے پاس جانے کو کہا تو وہ اوّل اوّل جانے پر تیار نہ تھے۔ جب جناب حسین نے انہیں بزدل اور فاسد الرائے ہونے کا طعنہ دیا تو وہ دو رہنماؤ ں کو لے کر کوفہ روانہ ہو گئے۔ اگرچہ مسلم اپنے اس سفر سے تقریباً ناامید تھے لیکن پھر بھی روانہ ہو گئے۔ پھر ایک رہنما راستہ میں ہی پیاس کی شدت سے ہلاک ہو گیا۔ جبکہ وہ راستہ بھی بھٹک گئے تھے۔ اس پریشان کن صورتِ حال کو دیکھ کر مسلم نے ایک بار پھر حسین( رضی اللہ عنہ ) کو خط لکھ کر ان سے اس مہم سے سبک دوش ہونے کی اجازت مانگی لیکن حسین( رضی اللہ عنہ ) نے سفر کو جاری رکھنے کی تاکید لکھ بھیجی۔
چنانچہ مسلم نے سفر جاری رکھا اور کوفہ جا پہنچے۔ کوفیوں نے مسلم کا بھرپور استقبال کیا اور مختار بن ابی عبید ثقفی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ مسلم مختار کے گھر سے ہی نکل کر لوگوں سے ملتے اور انھیں حسین( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت کی دعوت دیتے، چنانچہ موت پر بیعت کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار تک جا پہنچی۔ ایک قول اس سے کم تعداد کا بھی ہے۔ ان دنوں یزید کی طرف سے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیر( رضی اللہ عنہ ) تھے۔ جیسا کہ مؤرخین نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ نعمان ( رضی اللہ عنہ )تفرقہ کو ناپسند کرتے تھے اور عافیت و صلح کو ترجیح دیتے تھے۔‘‘[1]
عبدالحسین شرف الدین موسوی لکھتا ہے:
’’کوفی مسلم بن عقیل کے پاس آنے جانے لگے حتیٰ کہ نعمان بن بشیر( رضی اللہ عنہ ) کو اس کی خبر لگ گئی۔ (نعمان رضی اللہ عنہ اس وقت یزید کی طرف سے کوفہ کے والی تھے، کیونکہ پہلے انہیں معاویہ( رضی اللہ عنہ ) نے والی بنا رکھا تھا جس کو یزید نے امارت سنبھالنے کے بعد برقرار رکھا)۔ انہیں مسلم کی جائے سکونت کا بھی علم ہو گیا تھا لیکن انہوں نے مسلم کو کچھ بھی نہ کہا۔‘‘[2]
عبدالرزاق موسوی مقرم لکھتا ہے:
’’مسلم مختار ثقفی کے گھر ٹھہرے، کوفیوں نے جا جا کر انہیں خوش آمدید کہا اور سمع و طاعت کا اظہار
|