نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’نوحہ کرنا جاہلیت کا کام ہے، جو نوحہ کرنے والی بغیر توبہ کیے مر جاتی ہے رب تعالیٰ اس کے لیے تارکول کا ایک لباس اور جہنم کی لپٹوں کی ایک قمیص بناتے ہیں ۔‘‘[1]
لیکن ہمیں اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں سنت کی شدید مخالفت اور جاہلیت کی ان باتوں پر شدید اصرار نظر آتا ہے۔ ایک مسلمان سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور آپ کے رفقاء پر ہونے والے مظالم اور ان مقدس ہستیوں کو پیش آنے والے مصائب کو یاد کرتا ہے تو وہ وہی کہتا ہے جس کے کہنے کا اسے رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۵۶)
’’وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ ‘‘
ان اعدائے صحابہ نے اسلام کے خلاف جنگ برپا کرنے اور سنت نبویہ کو برباد کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خلاف چلنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ان کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور ان سے محبت کرنے والے سلف صالحین ائمہ مسلمین اور اخیار و ابرار کا بغض ہے۔
جناب علی بن حسین یا محمد بن علی یا جعفر بن محمد یا موسیٰ بن جعفر یا آلِ بیت اخیار کے ائمہ میں سے کسی ایک کے بارے میں نہیں سنا گیا اور نہ کسی تاریخی روایت سے اس بات کا علم ہوتا ہے خواہ وہ تاریخی روایت کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو کہ ان حضرات میں سے کسی نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سینہ کوبی کی ہو یا ماتم کیا ہو، یا چہرے پیٹے ہوں یا گریبان چاک کیے ہوں ، یا ان کے عرس اور چالیسویں منائے ہوں اور ان میں زنجیر زنی کے خلافِ سنت مظاہر بھی دکھلائے ہوں ؟ ہرگز بھی نہیں ۔ یہ تو وہ ائمہ ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے اور ان ائمہ کی پاکیزہ ہستیاں ان بدعات و سیئات سے خالی اور پاک ہیں ۔ لہٰذا جو ان کی مخالفت کرے گا
|