محمد بن مسلم ابو عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’جس نے حسین رضی اللہ عنہ کا حق پہچان کر ان کی قبر کی زیارت کی رب تعالیٰ اس کے لیے ایک ہزار مقبول حجوں کا ثواب لکھ لے گا اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘[1]
یہ ہیں وہ باطل روایات جن کی بنا پر یہ شیعہ حضرات کربلاء سے لائی مٹی پر سجدہ کرنے کو، جس کو یہ لوگ تربت حسینی کہتے ہیں ، ارضِ حرم پر سجدہ کرنے پر ترجیح اور فضیلت دیتے ہیں ۔ چنانچہ جب شیعہ کے آیۃ اللہ العظمی محمد حسین شیرازی سے سوال کیا گیا کہ
’’کہتے ہیں کہ سر زمین کربلاء سرزمین مکہ سے افضل ہے اور تربت حسینی پر سجدہ کرنا ارض حرم پر سجدہ کرنے سے افضل ہے؟ کیا یہ صحیح ہے؟ تو موصوف نے جواب دیا کہ ہاں۔‘‘[2]
شیعوں کے شیخ، آیت اللہ العظمی محمد الحسین کاشف الغطاء اکثر یہ شعر پڑھا کرتا تھا:
من حدیث کربلاء و الکعبۃ
لکربلاء بان علوم الرتبۃ
لکربلاء بان علو الرتبۃ
’’اگر بات کعبہ اور کربلا کی ہو تو بے شک یہ ظاہر ہو گیا کہ کربلا کا رتبہ اونچا ہے، کربلا کا رتبہ اونچا ہے۔‘‘[3]
شیعوں کے شیخ آیت اللہ العظمی عبدالحسین دست غیب کہتا ہے:
’’رب تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ کرم کیا کہ قبر حسین کی زیارت کو بیت اللہ الحرام کے حج کا بدل بنا دیا تاکہ جو حج نہ کر سکے وہ قبر حسین کی زیارت کو لازم پکڑے۔ بلکہ جو لوگ قبر حسین کی زیارت کی شرائط کو ملحوظ رکھتے ہیں انہیں حج سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے جیسا کہ اس باب میں وارد بے شمار صریح روایات میں آتا ہے۔‘‘[4]
شیعہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے یہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’کربلاء روئے زمین کی سب سے پاکیزہ، سب سے زیادہ حرمت والی سرزمین ہے اور یہ جنت
|