مجھ سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تجھے اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تجھے جو بھی مورتی نظر آئے اسے مٹا دے اور جو قبر اونچی نظر آئے اسے برابر کر دے۔[1] یہ ہیں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے پولیس کے سربراہ ابو الہیاج اسدی کو قبریں برابر کرنے کے لیے بھیجا جیسا کہ اس مقصد کے لیے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ یعنی انہوں نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جو کچھ سمجھا اس کی تطبیق کا اپنے رئیس شرطہ کو حکم جاری فرمایا۔[2]
علماء نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ امت اسلامیہ کی ابتدائی بہترین صدیاں زیارت گاہوں کے وجود سے خالی تھیں ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کی زیارت گاہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : خلافت عباسیہ کے آغاز اور اس کی استقامت کے دَور میں اس قسم کی چیزوں کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا، قبل ازیں عہد صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں بھی بلاد اسلامی مثلاً حجاز، یمن، شام، عراق، مصر، خراسان اور مغرب میں بھی ان مشاہد کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا، نہ تو کسی نبی کی قبر پر نہ اہل بیت میں سے کسی ایک کی قبر پر اور نہ کسی صالح انسان کی قبر پر ، زیادہ تر زیارت گاہیں اس کے بعد کی پیداوار ہیں ۔ ان کا ظہور اور انتشار اس وقت ہوا جب بنو عباس کی خلافت کمزور پڑ گئی، امت کی وحدت تقسیم ہو گئی، زنادقہ کی کثرت ہو گئی اور بدعت پرستوں کا پروپیگنڈا عام ہو گیا اور یہ تین ہجری کے اواخر میں مقتدر باللہ کی حکومت کے ایام میں ہوا۔ ان دنوں ارضِ مغرب میں قرامطہ عبیدیہ کا ظہور ہوا، بعد ازاں وہ مصر تک جا پہنچے۔ اس کے قریب ہی بنو بویہ کا ظہور ہوا جن کے زیادہ تر لوگ زندیق اور پرلے درجے کے بدعتی تھے، ان کی دولت میں سرزمین مصر میں بنو قداح نے زور پکڑا اور پھر انہی کی ریاست میں ہی نجف کے نواح میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب زیارت گاہ کا ظہور ہوا۔ قبل ازیں کوئی شخص بھی اس جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا قائل نہیں تھا، انہیں تو کوفہ میں قصر امارت میں دفن کیا گیا تھا۔ ہارون الرشید سے مروی ہے کہ وہ وہاں ایک قطعہ ارضی پر آیا اور وہاں مدفون شخص سے معذرت کرنے لگا، لوگ کہنے لگے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے اور یہ ان سے اس زیادتی پر معذرت کر رہا ہے جو ان کی اولاد کے ساتھ روا رکھی گئی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی قبر تھی جبکہ بعض کے نزدیک وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔[3]
امام ذہبی رحمہ اللہ عضد الدولہ ’’بویہی‘‘ کے حالات زندگی کے ضمن میں لکھتے ہیں : ’’یہ غالی رافضی تھا جس نے نجف میں ایک قبر تیار کر کے مشہور کر دیا کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے پھر اس نے اس پر زیارت گاہ تعمیر کر دی
|