عادلانہ بدلہ تھا، ان کا کہنا ہے کہ ہمارا نظریہ ثابت شدہ ان نصوص نبویہ کے عین مطابق ہے جو ولاۃ الامور کے خلاف خروج کرنے سے باز رکھتی ہیں ۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلمانوں میں تفریق ڈالنا چاہے اور وہ اکٹھے ہوں تو اس کی تلوار سے گردن اُڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‘‘[1]
امام سیوطی فرماتے ہیں : ’’اسے قتل کر ڈالو، وہ کہتر ہو یا مہتر۔‘‘[2]
اس حدیث کی تعلیق میں امام نووی فرماتے ہیں : ’’امام کے خلاف خروج کرنے والے یا مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرنے والے کو اس سے روکا جائے گا اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو اس سے قتال کیا جائے گا اور اگر پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور اس کا خون رائیگاں جائے گا۔‘‘[3]
اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ تاکید وارد ہے کہ مسلمانوں کے سلطان کے خلاف خروج کرنے والے کی سزا قتل ہے اور یہ اس لیے کہ وہ مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے درپے ہے، ان نصوص کے ساتھ سطحی تعلق کی وجہ سے ہی ابوبکر بن العربی نے یہاں تک کہہ دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے ہی قتل کیا گیا تھا۔[4] اور انہی احادیث پر جمود کی وجہ سے ہی کرامیہ نے کہہ ڈالا کہ حسین رضی اللہ عنہ یزید کے باغی تھے لہٰذا ان کی یہی سزا تھی۔[5] بعض لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے جواز کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک ان کا یہ عمل مشروع تھا، وہ اپنے اس موقف کے لیے حسین رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور ان کی یزید کے ساتھ عدم برابری پر اعتماد کرتے ہیں ۔[6] جبکہ بعض دوسرے حضرات حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کو شرعی خروج قرار دیتے ہیں اس لیے کہ یزید سے متعدد منکرات کا ظہور ہوا تھا۔[7] لیکن اگر ہم خروج حسین رضی اللہ عنہ اور پھر شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی تحصیل کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ نہ اِن لوگوں کا موقف درست ہے اور نہ اُن لوگوں کا ہی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے بیعت نہیں کی تھی اور انہوں نے شوریٰ اور ان مبادیات اسلام کے دفاع میں حکومت میں وراثت کے تصور پر اعتراض کیا تھا جو امت کو اپنی مرضی سے حکمران کے انتخاب کا حق دیتی ہیں ۔ مکہ جانے کے لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ تھے تاکہ وہ دونوں اپنے
|