Maktaba Wahhabi

100 - 441
پیروکاروں کو جمع اور مسلمانوں کو اس انحراف کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی ترغیب دلا سکیں جس نے نظام حکومت کو شوریٰ سے وراثت میں منتقل کر دیا ہے، حسین رضی اللہ عنہ کے سفر کا آغاز اپنے انصار و اتباع کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے تھا تاکہ وہ نظام حکومت میں در آنے والے بگاڑ کی تصحیح کر سکیں ، نظام شوریٰ، منہج خلافت راشدہ اور مبادیات کریمہ کو واپس لا سکیں ۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ آپ حکومت کے لالچ میں گھر سے نکلے تھے، حکومت کا لالچ ان کے اور ان کی ذریت کے شایان شان نہیں تھا، اس میں حسین رضی اللہ عنہ کا خسارہ تھا، ان کے اور ان کے اہل بیت کے منہج کا خسارہ تھا اور ان کے نانا علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات عالیہ کا خسارہ تھا۔[1] حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے یزید بن معاویہ سے بیعت نہیں کی تھی اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری میں مصروف ہو گئے تھے اور آپ نے ان اسلامی تعلیمات سے خروج نہیں کیا تھا جو ظالم حکمران کے خاتمہ کے لیے عمدہ تیاری کی شرط لگاتی ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے خیال میں کافی طاقت تیار کی تھی لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شماریات غلط ثابت ہوئیں ۔[2] مگر انہوں نے کسی ایسی شرعی غلطی کا ارتکاب نہیں کیا تھا جو نصوص شرعیہ کے خلاف ہو۔ خصوصاً جب ہم اس امر سے آگاہ ہیں کہ بعض احادیث نبویہ میں خروج کی نوع کی وضاحت کی گئی ہے۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرض نماز اپنے بعد کی نماز تک کے درمیانی عرصہ کے لیے کفارہ ہے۔ جمعہ آئندہ جمعہ اور مہینہ اگلے مہینہ (یعنی ماہ رمضان) کے درمیانی عرصہ کے لیے کفارہ ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مگر تین چیزوں کا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، بیعت توڑنا اور ترک سنت کرنا۔‘‘ بیعت توڑنے سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اس کی مخالفت پر اتر آئیں اور اس کے ساتھ تلوار سے قتال کریں ، جبکہ ترک سنت سے مراد مسلمانوں کی جماعت سے خروج کرنا ہے۔[3] حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتال کے ارادے سے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا خیال تھا کہ لوگ آپ کی اطاعت قبول کر لیں گے، مگر جب آپ نے دیکھا کہ وہ آپ سے منحرف ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے وطن لوٹ جانے یا کسی سرحد پر جانے یا پھر یزید کے پاس جانے کا مطالبہ کیا۔[4] مگر ابن زیاد نے ان کی اس نرمی
Flag Counter