Maktaba Wahhabi

101 - 441
اور ملائمت کے سامنے سرکشی کا مظاہرہ کیا جبکہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ آپ کا کوئی ایک مطالبہ تسلیم کر لیتا۔ اس کے برعکس اس نے نواسہ رسول اور فرزند علی حسین رضی اللہ عنہ سے ایک بہت بڑی چیز کا مطالبہ کر ڈالا اور وہ یہ کہ حسین رضی اللہ عنہ اس کا حکم تسلیم کریں ۔ مگر یہ ایک فطری سی بات تھی کہ وہ اس مطالبے کو ردّ کر دیں اور انہوں نے واقعی اس کو ردّ کر دیا۔ اس لیے کہ ابن زیاد کے حکم کو تسلیم کرنے کے انجام کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ انہیں قتل کرنے کا حکم صادر کر دے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اس قسم کی پیش کش تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعدائے اسلام حربی کفار کو کیا کرتے تھے، مگر حسین رضی اللہ عنہ کا شمار تو ان لوگوں میں نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ تو مسلمانوں کے سردار تھے اور ان کا شمار ان کے بہترین لوگوں میں ہوتا تھا۔[1] اسی لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ابن زیاد کے اس ناروا مطالبے کو پورا کرنا ان پر واجب نہیں تھا[2]اور حقیقت تو یہ ہے کہ ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے اقدام سے شرعی اور سیاسی پہلو کی مخالفت کی۔[3] ظالم تو ابن زیاد اور اس کا لشکر تھا جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی صلح کی پیش کش کو ردّ کر دیا اور پھر انہیں قتل کرنے کے لیے کمربستہ ہو گئے پھر جہاں تک حسین رضی اللہ عنہ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ خیر خواہی کا تعلق ہے تو اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ انہیں امام کے خلاف خروج کرنے والا سمجھتے تھے، جیسا کہ یوسف العش کا خیال ہے۔[4] بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں اہل کوفہ کی خطرناکی کا بخوبی ادراک تھا اور وہ ان کی کذب بیانی سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی نصائح کی مختلف تعبیریں انہی مفاہیم پر محمول ہوں گی۔[5] ابن خلدون رقم طراز ہیں : ’’اس سے حسین رضی اللہ عنہ کی غلطی واضح ہوتی ہے، مگر یہ غلطی دنیوی معاملے میں تھی جو ان کے لیے ضرررساں نہیں ہے، جہاں تک شرعی حکم کا تعلق ہے تو انہوں نے اس میں غلطی نہیں کی تھی، اس لیے کہ اس کا تعلق ان کے ظن کے ساتھ تھا اور وہ اپنے ظن کی رُو سے اس پر قادر تھے۔[6] رہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو حجاز، مصر، شام اور عراق میں موجود تھے، اور وہ لوگ جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہما کی متابعت نہ کی، تو انہوں نے نہ تو ان پر اس کا انکار کیا اور نہ انہیں اس کے لیے گناہ گار ٹھہرایا، اس لیے کہ وہ مجتہد تھے۔‘‘[7] ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن احادیث میں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے پر
Flag Counter