دوسری قید: … ان کی طرف سواریاں نہ دوڑائی جائیں ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سواریاں نہ دوڑائی جائیں مگر صرف تین مسجدوں کی طرف: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد۔‘‘[1]
اس سے مقصود ان تین مساجد کے علاوہ کسی مخصوص جگہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سواریاں دوڑانا ہے۔[2] یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی شخص نے کسی قبر یا زیارت گاہ کی صرف زیارت کے لیے ادھر کا سفر کیا ہو، اور نہ کسی نے اس عمل کے استحباب کی صراحت ہی کی ہے۔[3] علامہ صدیق حسن خان اپنی کتاب ’’السراج الوہاج من کشف مطالب صحیح مسلم ابن الحجاج‘‘ میں مختلف اقوال کو ذکر کرنے اور ان کے مناقشہ کے بعد فرماتے ہیں : زیارت قبور کے علاوہ کسی اور مقصد سے سفر کرنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔ ایسا آپ کے زمانہ مبارک میں ہوتا تھا اور آپ نے اسے برقرار بھی رکھا، لہٰذا اس سے روکنے کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔ رہا قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا، تو ایسا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔ کسی ایک بھی حدیث میں اس کے جواز کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا اور نہ آپ نے اپنی امت کے کسی فرد کے لیے اسے مشروع ہی فرمایا، نہ قولاً نہ فعلاً۔[4]
(۳) قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا اور انہیں مسجدیں بنا لینا:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنے اور ان کی کسی بھی طرح سے تعظیم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے آگاہ فرمایا کہ ایسا صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی مخلوق کے بدترین لوگ ہوتے ہیں ، جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ روز قبل آپ سے سنا:
’’خبردار تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار، تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔‘‘[5]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے ، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت کھڑی
|