Maktaba Wahhabi

94 - 441
((السلام علیکم دار قوم مومنین ، اتاکم توعدون ، غدا موجلون و اناان شاء اللّٰہ بکم لاحقون۔ اللہم اغفر لاہل بقیع الغرقد)) ’’سلام ہو تم پر اس گھر میں رہنے والی قوم، تمہارے پاس وہ چیز آ گئی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، تم کل (قیامت کے دن) تک مہلت دئیے گئے ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں ۔ اے اللہ بقیع غرقد کے رہنے والوں کی مغفرت فرما دے۔‘‘[1] ان احادیث میں اس امر کا بیان ہے کہ زیارت قبور کا ایک مقصد اہل قبور کو سلام کہنا، ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنا اور ان کے لیے استغفار کرنا ہے، امام صنعانی ’’سبل السلام‘‘ میں زیارت قبور پر مشتمل احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ تمام احادیث زیارت قبور کی مشروعیت اور اس میں پنہاں حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ زیارت قبور کا ایک مقصد عبرت کا حصول ہے۔ اگر زیارت قبور ان چیزوں سے عاری ہو تو پھر اس کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔[2] یہ ہیں زیارت قبور کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کردہ اسلامی تعلیمات۔ لہٰذا جو شخص ان مقاصد سے ہٹ کر کسی اور مقصد کے لیے ان کی زیارت کرے گا تو اسے اس پر ردّ کر دیا جائے گا۔ پھر ایسی زیارت یا تو بدعت پرستانہ ہو گی یا مشرکانہ، اور یہ فیصلہ اس کے اعتقاد اور اعمال کے حساب سے ہو گا۔ زیارت قبور کے یہ اہداف و مقاصد بالکل ٹھوس اور واضح ہیں اور یہ شرک اور غلو تک پہنچانے والے ہر ذریعہ سے دُور اور بہت دُور ہیں ، اس حوالے سے بعض ایسی قیود بھی وارد ہیں جو شرک اور غلو کا سدباب کرتی ہیں ۔[3] پہلی قید:… قبروں کو عیدیں نہ بنایا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبریں نہ بنانا اور میری قبر کو عید نہ بنانا، اور مجھ پر درود بھیجنا، اس لیے کہ تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔‘‘[4] زیارت قبور کے لیے کوئی دن، کوئی ہفتہ، کوئی مہینہ اور کوئی سال مخصوص نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا وتیرہ ہے۔[5]
Flag Counter