حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر عسقلان میں موجود و مدفون ہے، اس سے عبیدیین کی کذب بیانی اور اس بارے میں ان کے مخصوص اغراض و مقاصد کا پتا چلتا ہے۔[1]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جس سر کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر ہے تو اس کی اس کے علاوہ اور کوئی اصلیت نہیں ہے کہ وہ ایک راہب کا سر تھا۔[2]
ابن دحیہ نے اپنی کتاب ’’العلم المشہور‘‘ میں عسقلان یا مصر میں رأس حسین رضی اللہ عنہ کے وجود کے کذب پر اجماع نقل کیا ہے، جس طرح کہ انہوں نے قاہرہ میں موجود مشہد حسینی کے کذب و افتراء پر اجماع نقل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ عبیدیین کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس مشہد کو تعمیر کیا، آخر اللہ نے اس حکومت کا خاتمہ فرمایا اور یوں ان کے مذموم مقاصد کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔[3] رأس حسین رضی اللہ عنہ کی مصر میں موجودگی کا ان علماء و محققین نے انکار کیا ہے:
ابن دقیق العید، ابو محمد بن خلف دمیاطی، ابو محمد بن قسطلانی اور ابو عبداللہ قرطبی وغیرہم۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مصر کے حکمران فاطمی گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مصر پہنچا تو انہوں نے اسے وہاں دفن کیا اور اس پر مصر میں موجود مشہد تعمیر کیا جسے تاج الحسین کہا جاتا ہے۔ متعدد ائمہ اہل علم نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اس دعویٰ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس میں وہ جھوٹے اور خائن ہیں ۔ اس کی تنصیص قاضی باقلانی اور ان کی دولت کے کئی جید علماء نے کی ہے۔ میں کہتا ہوں : اکثر لوگوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کر لیا کہ انہوں نے رأس حسین رضی اللہ عنہ کو عسقلان سے لا کر مسجد مذکور میں دفن کیا۔[4]
۶۔ مدینہ طیبہ:… جن شہروں کا اوپر ذکر ہوا ان میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کا وجود ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ اب ہمارے سامنے صرف مدینہ منورہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک والی مدینہ عمرو بن سعید کے پاس مدینہ منورہ بھجوا دیا۔ اس نے اسے کفن دیا اور اسے ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بقیع میں دفنا دیا۔[5]
|