ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ان کے بقیع میں دفنانے کی شہادت قوم کی عادت سے بھی ملتی ہے۔ وہ لوگ فتنہ کے دَور سے گزر رہے تھے۔ جب ان میں سے کوئی آدمی قتل ہو جاتا تو وہ اس کا سر اور جسم اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیتے تھے جیسا کہ حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا، اس نے انہیں قتل کرنے اور مصلوب کرنے کے بعد ان کی لاش کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا تھا اور یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ حجاج کا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کے لیے کوشاں ہونا اور ان کے درمیان جس قسم کی جنگ تھی وہ صورت حال اس سے کہیں سنگین تھی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے مخالفین کے درمیان تھی۔[1]
اس رائے کی تائید حافظ ابو یعلی ہمدانی کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو ان کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے قریب دفن کیا گیا اور یہ اس بارے میں صحیح ترین قول ہے۔[2] زبیر بن بکار اور محمد بن حسن مخزومی جیسے علمائے نسب کا بھی یہی مذہب ہے۔[3] ابن ابو المعالی اسعد بن عمار نے اپنی کتاب ’’الفاصل بین الصدق و اعین فی مقر رأس الحسین‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ابن ابی الدنیا، ابو الموید خوارزمی اور ابوالفرج ابن الجوزی جیسے ثقہ علماء کی ایک جماعت نے اس بات کو تاکیدکے ساتھ ذکر کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک مدینہ منورہ میں بقیع میں مدفون ہے۔[4] اس بارے میں قرطبی نے بھی ان کی متابعت کی ہے۔[5] زرقانی فرماتے ہیں : ابن دحیہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی قول صحیح نہیں ہے۔[6]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اس طرف میلان ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے مدینہ میں اپنے والی عمرو بن سعید کے پاس مدینہ بھیجا اور اس سے مطالبہ کیا کہ اسے ان کی ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفنایا جائے۔ وہ اپنے اس قول کی وجہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں : رأس حسین رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ منتقل کرنے کا ذکر کرنے والے قابل اعتماد علماء اور ثقہ مورخین ہیں ، مثلاً زبیر بن بکار مؤلف ’’کتاب الانساب‘‘ اور محمد بن سعد، واقدی کے کاتب اور مؤلف ’’طبقات‘‘ اور ان جیسے دوسرے لوگ جو علم ثاقت اور اطلاع کے ساتھ معروف ہیں اور وہ اس موضوع کے بارے میں زیادہ علم رکھتے اور زیادہ سچے ہیں ۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی صادق تو ہو مگر اسے اسانید کا تجربہ نہ ہو، اس طرح وہ مقبول اور مردود میں فرق کرنے سے قاصر ہوتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ
|