(۴) عسقلان:… محققین کی ایک جماعت اس خبر کا انکار کرتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو عسقلان میں دفن کیا گیا تھا۔ قرطبی فرماتے ہیں : یہ قول بالکل باطل ہے کہ آپ کا سر عسقلان میں مدفون ہے۔[1] ابن تیمیہ بھی رأس حسین رضی اللہ عنہ کی عسقلان میں موجودگی کا انکار کرتے ہیں ۔[2] ابن کثیر بھی اس سے انکاری ہیں ۔[3]
(۵) قاہرہ:… لگتا ہے کہ عبیدی (فاطمی) حکمرانوں کا جادو اکثر لوگوں پر چل گیا۔ جب ۵۴۹ ہجری میں صلیبیوں نے عسقلان پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا تو فاطمی وزیر صالح طلائع بن زریک اپنے لشکر کے ساتھ ننگے پاؤ ں صالحیہ کی طرف نکلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر لے کر اسے سبز رنگ کے ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آبنوس کی کرسی پر رکھ دیا اور اس کے نیچے عنبر، کستوری اور خوشبو کا چھڑکاؤ کیا اور پھر خان خلیلی کے قریب مشہد حسینی میں دفن کر دیا اور یہ اتوار ۸جمادی الاولیٰ ۵۴۸ ہجری کا واقعہ ہے۔[4] فاروقی نے ذکر کیا ہے کہ فاطمی خلیفہ خود باہر نکلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر اٹھا کر لایا[5] اور شبنجی نے ذکر کیا ہے کہ فاطمی وزیر صالح طلائع نے فرنگیوں کے عسقلان پر قبضہ جما لینے کے بعد بڑی بھاری رقم ادا کر کے ان سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک حاصل کیا۔[6]
بعض مؤرخین نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک واقعی عسقلان سے مصر منتقل کیا گیا تھا اور مصر میں موجود حسینی مشہد کو حقیقتاً رأس حسین رضی اللہ عنہ پر تعمیر کیا گیا۔[7] متاخرین میں سے ایک شخص حسین محمد یوسف نے ثابت کیا ہے کہ مشہد حسینی میں مدفون سر واقعی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر ہے اور اس کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ سب غلط ہیں ، اس کے لیے اس نے بعض صوفیہ کے خوابوں سے استدلال کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ رأس حسین رضی اللہ عنہ کے قاہرہ میں موجود ہونے کی وجہ شک کا یقین کے ساتھ متعارض ہونا ہے اور یقین ’’اصحاب کشف‘‘ ہیں ۔[8] مگر یہ استدلال تو عقل، منطق اور علمی دلیل پر مبنی نہیں ہے، چہ جائیکہ یہ استدلال اسلامی منہج
|