ذہبی نے اپنی سند کے ساتھ کریب سے نقل کیا ہے کہ میں باب توما سے نکلا، جب میں نے ٹوکری کو کھولا تو اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر پڑا تھا اور اس پر لکھا تھا کہ یہ حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) کا سر ہے میں نے اس میں اپنی تلوار سے گڑھا کھودا اور اسے اس میں دفن کر دیا۔[1] یہ روایت بہت ضعیف ہے۔[2] پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے سر مبارک کو اسلحہ خانہ میں محفوظ رکھنے کا یزید کو کیا فائدہ تھا؟[3]
(۲) کربلا:… شیعہ امامیہ کے علاوہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہادت کے چالیس دن بعد آپ کا سر دوبارہ کربلا میں لایا گیا اور اسے ان کے جسد مبارک کے ساتھ دفنا دیا گیا۔[4] ان کے ہاں یہ دن زیارت اربعین کے نام سے مشہور ہے۔ مگر اس کی تردید کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس قول کے ساتھ شیعہ امامیہ متفرد ہیں مگر اس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ابو نعیم فضل بن دکین بعض لوگوں کے اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کو پہچانتے ہیں۔[5] ابن جریر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی جگہ کا نشان مٹا دیا گیا تھا تاکہ کوئی شخص اس کی تعیین نہ کر سکے۔[6]
(۳) رقہ:… سبط ابن جوزی اس خبر کو وارد کرنے کے ساتھ منفرد ہیں کہ آپ کے سر مبارک کو رقہ میں دفن کیا گیا، فرماتے ہیں : حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر دریائے فرات کے کنارے رقہ کی مسجد میں مدفون ہے۔ جب آپ کا سر یزید کے سامنے رکھا گیا تو وہ کہنے لگا: میں اسے رقہ میں مقیم آل ابو معیط کے پاس بھیجوں گا۔ انہوں نے اسے اپنی کسی حویلی میں دفن کر دیا۔ بعدازاں یہ حویلی جامع مسجد میں شامل ہو گئی۔[7] مگر یہ خبر غیر معتبر ہے اور اس روایت کی سند بھی غیر موجود ہے۔ مزید برآں اس خبر میں واضح نکارت ہے اس لیے کہ یہ ان صحیح نصوص کے برعکس ہے جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید نے اچھا سلوک کیا۔[8] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ سبط ابن جوزی کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں : میں نے اس کی ایک کتاب دیکھی ہے جو اس کے تشیع پر دلالت کرتی ہے۔[9]
|