کہ ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے بارے میں کوئی صریح نص وارد نہیں ہے، مگر یہ ایک عمدہ اور قابل تعریف جذبہ ہے، جس سے مومنین کے نفوس میں اس لیے جوش دلایا جاتا ہے کہ کربلا کے دل فگار واقعہ میں مقدس خون بہائے گئے۔[1]
مگر یہ بات یقینی ہے کہ ان امور کا شمار منکرات اور بدترین قسم کی بدعات میں ہوتا ہے۔[2] اسلام نے ہمیں آداب مصائب کی تعلیم دی ہے۔ شہادت حسین رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور مصائب کے مواقع پر چند آدابِ اسلام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ مصائب پر صبر کرنا:… مصیبت کا سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ انسان مصیبت آنے پر صبر کرے، صبر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دل کو ناراضی سے زبان کو شکوہ و شکایت سے اور جوارح کو ان اعمال و افعال سے روکے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں ، مثلاً رخسار پیٹنا، گریبان چاک کرنا، چہرے پر خراشیں لگانا، بال نوچنا اور جاہلانہ انداز میں واویلا کرنا۔ اسلامی تعلیمات کی رُو سے مصیبت کی خبر سننے کے ساتھ ہی انسان کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’صبر پہلے صدمہ کے وقت ہوتا ہے۔‘‘[3]
۲۔ مصیبت پر صبر کر کے ثواب حاصل کرنا:… انسان کو چاہیے کہ وہ مصیبت پر صبر کر کے اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھے، کیونکہ ایسا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo﴾ (لقمٰن: ۱۷)
’’اور تم پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا، یقینا یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔‘‘
انسان اگر کسی پیاری چیز کو گم پائے تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد کرنا چاہیے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی کسی پیاری چیز کو قبض کر لوں اور وہ اس سے ثواب کا ارادہ کرے تو میرے پاس جنت کے علاوہ اس کی اور کوئی جزا نہیں ہے۔‘‘[4] پیاری چیز، مثلاً بیٹا، باپ یا اس جیسی کوئی چیز۔ اللہ رب کائنات نے مصائب پر صبر کرنے کے بدلے اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ صبر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہو، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِمْ﴾ (الرعد: ۲۲)
|