قیامت کے دن اس حال میں کھڑا کیا جائے گا کہ اس نے گندھک کی شلوار اور خارشی قمیص پہن رکھی ہو گی۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’میں چیخنے چلانے والی، بال نوچنے والی اور گریبان چاک کرنے والی سے لاتعلق ہوں ۔‘‘[2]
حسینیت کے شعائر کے تحت جو کیا جاتا ہے مثلاً طمانچے مارنا، نوحہ کرنا، سیاہ لباس پہننا وغیرہ اور جس کے جواز کا ان کے علماء و مفتیان فتویٰ دے رہے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک اور ائمہ اہل بیت کی زبانوں سے حرام قرار پا چکا ہے اور یہ سب کچھ شیعہ کے قدیم اور جدید مصادر میں موجود ہے اور اس تحریم کا ان کے شیوخ اور سرکردہ لوگ اعتراف کرتے ہیں ۔
محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی، جوصدوق کے لقب سے معروف ہے، کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’نوحہ کرنا زمانہ جاہلیت کا فعل ہے۔‘‘[3]
محمد باقر مجلسی نے بھی اسے انہی الفاظ میں روایت کیا ہے۔[4]
یہ لوگ جس نوحہ اور آہ و بکا پر نسلاً بعد نسل عمل پیرا ہیں وہ زمانہ جاہلیت کا عمل ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مطلع فرمایا ہے۔[5] جو روایات شیعہ کو ان امور سے منع کرتی ہیں جن کا ارتکاب وہ اپنی مجالس و محافل میں کیا کرتے ہیں ان میں سے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد بھی ہے: ’’اس شہر میں میت پر نوحہ کرنے سے منع کرو جہاں تمہاری حکومت ہو۔‘‘[6]
حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کا ارشاد ہے: ’’تین کام زمانہ جاہلیت کے اعمال میں سے ہیں جن پر لوگ قیامت تک عمل کرتے رہیں گے: (۱) ستاروں کی وجہ سے بارش مانگنا (۲) انساب میں طعن کرنا اور (۳) مردوں پر نوحہ کرنا۔‘‘[7] امام محمد باقر کا قول ہے: ’’چہرہ اور سینہ پیٹنا اور بال نوچنا بے صبری کی انتہاء ہے، نوحہ کرنے والا صبر کا دامن چھوڑ دیتا اور غلط راستہ اختیار کرتا ہے۔‘‘[8]
سر پر خنجر اور تلواریں مارنے اور خون بہانے کے بارے میں شیخ حسن مغنیہ فرماتے ہیں : امر واقع یہ ہے
|