Maktaba Wahhabi

70 - 441
۳۔ رونے، رلانے اور عزا داری کے لیے امامیہ شیعہ جو 7صدیوں سے تشبیہات و تمثیلات کا رواج اپنائے ہوئے ہیں تو ان کے جواز میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ ان کے نزدیک آج یہ فتویٰ معمول بہا ہے اور اس پر ان کا اجماع ہے۔ اکثر اثنا عشری علماء تو اسے واجب قرار دیتے ہیں ۔[1] ان مظاہر کے بارے میں ناصر الدین شاہ رقم طراز ہیں : ’’ہندوستان، پاکستان، ایران اور عراق میں لوگ گلیوں بازاروں میں تعزیے نکالتے، ان کے ساتھ ننگے پاؤ ں چلتے اور لوہے کی ایسی زنجیروں سے ماتم کرتے ہیں جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اور تیز دھار بلیڈ یا چھریاں بندھی ہوتی ہیں ۔ بعض لوگ تو اس زور سے ماتم کرتے ہیں کہ ان کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے، اور بعض لوگ مر بھی جاتے ہیں ، جبکہ عورتیں گھروں میں بیٹھ کر آہ و بکا کرتیں اور اپنے ہاتھوں سے ماتم کرتی ہیں اور یہ سب کچھ اس حسین رضی اللہ عنہ کے غم اور احترام میں ہوتا ہے جو ان کے خیال میں مظلومانہ انداز میں مقتول ہوئے۔‘‘[2] سیّد محسن امین حسینی ماتمی مجالس کے انعقاد کے اسباب گنواتے ہوئے رقم طراز ہے: ’’اس قسم کے ماتمی پروگراموں کا مقصد ان کی مظلومانہ شہادت پر کبھی آواز کے ساتھ اور کبھی آواز کے بغیر رونا، حزن و تاسف اور تکلیف و الم کا اظہار کرنا ہوتا ہے اور اس دوران مرثیہ خوانی اور نوحہ خوانی کے ذریعے سے معتقدین کو غم کے اظہار پر اور رونے کے لیے آمادہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘[3] خمینی لکھتا ہے: ’’سیّد الشہداء پر رونے اور حسینی مجالس کے انعقاد نے ہی چودہ صدیوں سے اسلام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رکھا ہے۔‘‘[4] حسین رضی اللہ عنہ مذکورہ بالا افعال سے بری الذمہ ہیں ، اس لیے کہ جس اسلام کو ان کے نانا( صلی اللہ علیہ وسلم ) لے کر آئے تھے وہ تو ان جیسے افعال کو جائز قرار نہیں دیتا۔ ان کا تو ارشاد گرامی ہے: ’’رخسار پیٹنے والا، گریبان چاک کرنے والا اور جاہلیت کی باتیں لکھنے والا ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔‘‘[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد مبارک ہے: ’’اگر نوحہ کرنے والی مرنے سے پہلے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے
Flag Counter