Maktaba Wahhabi

69 - 441
غم اور نوحہ کے دن کے طور پر منایا، اس دن بازار بند کر دئیے جاتے، گلیوں بازاروں میں نوحہ خوانی ہوتی، خود خلیفہ اور اس کے ساتھ قاضی حضرات، امراء اور معززین غم ناک حالت میں بیٹھ جاتے، بازاروں میں ننگے پاؤ ں چلتے، شعراء اہل بیت کے مرثیے پڑھتے اور واعظین و خطباء شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے من گھڑت قصے کہانیاں بیان کرتے، خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رلاتے۔[1] ان دنوں گلیوں بازاروں میں تعزیتی جلوس نکالے جاتے، رخسار پیٹے جاتے اور زنجیر زنی کی جاتی جس سے خون بہہ پڑتا ہے۔[2] ابن کثیر ۴۰۰ ہجری کی حدود میں بنوبویہ کی حکومت کے ایام میں کتاب و سنت کی حدود سے متجاوز عاشورۂ محرم کی تصویر کشی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’اس دن بغداد اور دوسرے شہروں میں ڈھول بجائے جاتے، راستوں اور بازاروں میں راکھ اور توڑی اڑائی جاتی، دکانوں پر ٹاٹ لٹکا دئیے جاتے اور لوگ غم کا اظہار کرتے اور روتے پیٹتے، بہت سے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم اور ان کی موافقت میں پانی نہ پیتے اس لیے کہ انہیں شدید پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا تھا، پھر عورتیں چہرے کھول کر نوحہ کرتیں ، روتیں اور بین کرتیں ، اپنے سینوں اور چہروں پر طمانچے مارتے ہوئے ننگے پاؤ ں بازاروں میں نکلتیں ، اس قسم کے اور بھی کئی رسوائی کے کام کیے جاتے، قبیح بدعات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا، اس قسم کے کاموں سے ان کا اصل مقصد بنو امیہ کی حکومت کو بدنام کرنا ہوتا تھا اس لیے کہ حسین رضی اللہ عنہ ان کے دَورِ حکومت میں قتل ہوئے تھے۔[3] اثنا عشری علماء تعزیتی جلوسوں کے جواز کے قائل ہیں ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں محمد حسین غروی نے لکھا: ۱۔ عاشورۂ محرم کے دن گلیوں اور بازاروں میں تعزیتی جلوسوں کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے، یہ ہر قریب اور بعید تک حسینی پیغام پہنچانے کا آسان ترین طریقہ ہے اور اس سے مظلوم شہید کو پرسا دینے کی رسم بھی ادا ہوتی ہے۔ ۲۔ رخساروں اور سینوں پر طمانچے مارنے کے جواز میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ بلکہ ایک حد تک زنجیر زنی کا جواز بھی موجود ہے۔ اگر زنجیر زنی سے قدرے خون نکل آئے اور اس سے ماتمی حضرات کو تکلیف پہنچے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اگر تلوار زنی سے اس قدر خون بہ نکلے کہ وہ زیادہ ضرر رساں نہ ہو تو راجح قول کی رُو سے اس کا جواز بھی موجود ہے۔
Flag Counter