رونے کا ثواب‘‘ اس باب کے تحت اس نے اڑتیس سے زیادہ روایات ذکر کی ہیں ۔[1]
ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ ابو عبداللہ فرماتے ہیں : ہر جزع و فزع اور رونا مکروہ ہے، علاوہ حسین( رضی اللہ عنہ ) پر رونے دھونے اور جزع و فزع کرنے کے۔[2] بلکہ ان کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ قتل حسین( رضی اللہ عنہ ) پر آسمان بھی روئے اور زمین بھی، آسمان نے خون اور سرخ مٹی کی بارش برسائی۔ قتل حسین( رضی اللہ عنہ ) پر فرشتے، جن اور تمام مخلوق روئی۔[3] صرف اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے یوم عاشوراء کی حرمت کا فتویٰ جاری کیا اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے والا حسین( رضی اللہ عنہ ) اور اہل بیت کا دشمن ہے۔[4]
کلینی اپنی سند سے جعفر بن عیسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں نے علی رضا رحمہ اللہ سے یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: تو مجھ سے ابن مرجانہ کے روزے کے بارے میں سوال کرتا ہے؟ یہ وہ دن ہے جس میں آل زیاد کے حرام زادوں نے قتل حسین کی وجہ سے روزہ رکھا اور وہ ایسا دن ہے جس کے ساتھ آل محمد اور مسلمان بدفالی لیتے ہیں ، اس دن نہ تو روزہ رکھا جائے اور نہ اس کے ساتھ تبرک حاصل کیا جائے اور سوموار کا دن منحوس ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو قبض کیا، آل محمد کو جو بھی تکلیف پہنچی سوموار کے دن پہنچی۔ ہم تو اس دن کے ساتھ بدفالی لیتے ہیں جبکہ ابن مرجانہ اس کے ساتھ تبرک حاصل کرتا ہے، جو شخص ان دونوں دنوں کا روزہ رکھے یا ان کے ساتھ تبرک حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا دل مسخ ہو چکا ہو گا اور اس کا حشر ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے ان دونوں دنوں کے روزے کو رواج دیا اور ان کے ساتھ برکت حاصل کی۔[5]
۳۵۲ ہجری میں بنو بویہ کی حکومت کے دوران میں معز الدولہ بن بابویہ نے اہل بغداد کو عاشوراء کے دن حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرنے کا حکم دیا، اس کے حکم سے بازار بند کر دئیے جاتے، کھانا پکانے والوں کو کھانے پکانے سے روک دیا جاتا، عورتیں ننگے منہ باہر نکلتیں اور اپنے سینوں اور چہروں پر طمانچے مارتے ہوئے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتیں ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔[6] اسی طرح دولت عبیدیہ فاطمیہ نے یوم عاشوراء کو حزن و
|