جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔‘‘
۳۔ حر بن یزید رحمہ اللہ کا موقف:… لشکر کوفہ سے حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے والے یہ پہلے شخص تھے اور انہوں نے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے واپسی کو ناممکن بنایا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی لائق ستائش تھا، انہوں نے آپ سے کہا: مجھے آپ کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر میری آپ سے ملاقات ہو جائے تو آپ کو کوفہ لے جاؤ ں ۔ مگر میں پھر بھی آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کر لیں جو نہ آپ کو کوفہ پہنچائے اور نہ مدینہ منورہ واپس ہی لے جائے۔ اس کے بعد میں یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ یا ابن زیاد کو خط لکھ دوں گا اور اگر آپ چاہیں تو خود بھی یزید یا ابن زیاد کو لکھییشاید اللہ میرے لیے خلاصی کی کوئی صورت پیدا کر دے اور میں آپ کے بارے میں امتحان سے بچ جاؤ ں ۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں عمر بن سعد بن ابی وقاص ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے آ گیا اور فریقین آمنے سامنے نظر آنے لگے، اس سے حر کو یقین ہو گیا کہ اب فریقین میں جنگ ہو کر رہے گی۔ اس وقت حر نے عمر بن سعد سے کہا: اللہ تجھے ہدایت دے، کیا تم اس شخص سے لڑو گے؟ عمر نے جواب دیا: ہاں اللہ کی قسم! کم از کم ایسی جنگ جو سر اڑائے اور ہاتھوں کو شل کردے۔ اس وقت حر نے اپنے گھوڑے کو ضرب لگائی اور جا کر حسین رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل ہو گئے، پھر کہنے لگے: اے اہل کوفہ! اللہ تمہیں ہلاک و برباد کرے، تم نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ جب وہ چلے آئے تو انہیں دشمن کے حوالے کر دیا۔ تم کہتے تھے کہ ان پر اپنی جانیں نثار کر دیں گے اور اب انہیں قتل کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہو رہے ہو اور تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین میں جانے سے روک دیا حالانکہ اس میں آنے جانے سے کتوں اور خنزیروں کو بھی نہیں روکا جاتا۔ تم ان کے اور دریائے فرات کے پانی کے درمیان حائل ہو گئے ہو جس سے کتے اور خنزیر بھی پیا کرتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ پیاس کی شدت نے ان سب لوگوں کو ہلاک کر رکھا ہے۔ تم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی ذریت سے کتنا برا سلوک کیا، اگر تم آج اور اسی وقت اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور تم اللہ کے حضور توبہ نہ کی تو اللہ تمہیں قیامت کے دن بڑی تشنگی سے دوچار کرے۔
حر نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے پہلے موقف کے بارے میں معذرت کی جسے انہوں نے قبول فرما لیا، جب ان کے بعض ساتھیوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی صف میں شامل ہونے پر انہیں ملامت کی تو وہ کہنے لگے:
|