Maktaba Wahhabi

382 - 441
اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر بھی کیا۔ جیسا کہ امام زین العابدین ہمیشہ اہل کوفہ کو قتل حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ یہی رائے زینب بنت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بھی تھی اور محمد بن حنفیہ بھی ہمیشہ کوفیوں کی گردن پر قتل حسین رضی اللہ عنہ کے خون کو تلاش کرتے تھے۔ جبکہ سادات اہل بیت جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ بھی کوفیوں کو ہی خون حسین کا اصل قاتل قرار دیتے تھے۔ ٭ اہل بیت میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ انہوں نے یزید کو قتل حسین کا ذمہ دار کہا ہو اور یزید کی وفات تک اہل بیت میں سے کسی نے بھی یزید کے خلاف خروج نہ کیا تھا۔ اس باب میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ نرا باطل اور سراسر کذب ہے۔ جو اعدائے صحابہ کے اباطیل و اکاذیب میں سے ہے جن کو یہ لوگ صرف حقائق کو بدلنے کے لیے دہراتے رہتے ہیں اور جن پر صرف مخبوط الحواس لوگ ہی کان دھرتے ہیں ۔ دوسرے ان روایات کی آڑ میں مظلومیت کے عقیدہ کو فروغ دینا مقصود ہے تاکہ اس گھناؤ نے ترین جرم کے اصل مجرم بری رہیں ۔ ٭ شعائر حسینیہ کے نام سے کیے جانے والے افعال نری رسمیں ہیں جن کی آڑ میں قاتلان حسین شبہات پیدا کر کے خود کو اس جرم سے بری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ رسوم ائمہ اہل بیت کے ادوار میں نہ تھیں بلکہ بعد کے عہود میں ایجاد کی گئی ہیں اور یہ بھی معلوم رہے کہ نوحہ کرنا، سینہ کوبی کرنا، زنجیر زنی کرنا اور سیاہ لباس پہننا سب حرام ہے اور مکروہ ترین بدعت ہے۔ ٭ شیعہ عاشوراء کے روزہ کا انکار کر کے اسے امویوں کی ایجاد قرار دیتے ہیں حالانکہ اس روزہ کی سنت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی کیونکہ اس دن سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی اور فرعون اپنے لشکروں سمیت غرق ہوا تھا۔ عاشوراء کے روزہ کا قتل حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں جو تقدیر سے دس محرم کو پیش آ گیا تھا۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد اور امت مسلمہ بہت پہلے سے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ٭ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی منصوبہ بندی صرف رافضی کوفی سبائیوں نے کی تھی۔ اس لیے اس جرم کا گناہ صرف انہی کے سر ہے اور آج بھی یہ لوگ امت مسلمہ کے خون سے ہولی کھیلنے کے جرم کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ۔ امت مسلمہ کا امن، سلامتی اور وحدت انہیں نہ کل بھائی تھی اور نہ آج بھاتی ہے۔ ٭ شیعہ مقبروں اور زیارت گاہوں کے بنانے کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں سے
Flag Counter