٭ غدار کوفیوں کے اس مکر نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کو ردّ کرنے پر ابھارا جنہوں نے آپ کو خروج سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور نصیحت و وصیت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ چنانچہ آپ نے اپنے مخلصین و محبین میں سے کسی کی بات نہ مانی اور کوفہ پہنچنے تک راستہ میں جو بھی ملا نہ اس کی بات مانی۔
٭ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ سب شخصی یا خاندانی مفادات کے لیے نہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب راستے میں آپ کو مسلم بن عقیل کی شہادت پا جانے کی خبر ملی تو آپ نے لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن مسلم کے بیٹوں نے اب واپس جانا مناسب نہ سمجھا اور ان کے قتل کا بدلے لینے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ جس پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی اس امید پر ان کی رائے کی موافقت کرنے پر مجبور ہو گئے کہ شاید آپ ان پر سے شر کو ہٹا سکیں ۔
٭ کوفہ پہنچ کر جب آپ نے لشکریوں کی قوت دیکھی تو یزید کے پاس جانے کے ارادے سے شام کا رخ کرنا چاہا لیکن کوفیوں نے نہ جانے دیا اور ان کے لشکریوں نے کربلا میں آپ کا محاصرہ کر لیا۔
٭ جب آپ نے دیکھا کہ یہ کوفی آپ کی جان لے کر ہی رہیں گے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان کے آنے والے سب خطوط جھوٹے اور جعلی تھے تو آپ صلح اور مفاہمت پر آمادہ ہو گئے اور ان کے سامنے تین تجاویز رکھ دیں جن کو گزشتہ میں ذکر کر دیا ہے۔ لیکن ان سبائیوں نے تینوں تجاویز کو رد کر دیا۔
٭ کوفی سبائیوں کا ان تجاویز کو رد کرنا اور عمر بن سعد کی رائے کو بھی قبول نہ کرنا جو آپ کی تائید میں تھا۔ ان کوفیوں کے ارادوں اور نیتوں کو واضح کرتا ہے کہ وہ صرف آپ کو قتل ہی کرنا چاہتے تھے تاکہ سنت کے ایک زبردست حامی و ناصر کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے اور امت کی وحدت کو انتشار و خلفشار کی آگ میں پھینک دیا جائے اور بعد میں انہی پاکیزہ خونوں کو امت کی صفوں میں فتنوں کے پھیلانے میں استعمال کریں گے۔
٭ ابن مرجانہ کو جب عمر بن سعد کی رائے پہنچی کہ وہ صلح پر آمادہ ہے تو ابن مرجانہ فارسیہ بھی اس کے لیے تیار ہو گیا۔ لیکن افسوس کہ کوفیوں نے اسے ایسا کرنے نہ دیا اور شمر بن ذی الجوشن رافضی نے اسے ڈرایا کہ آگے چل کر یہی حسین تیری حکومت کے کمزور کرنے اور گرانے کا سبب بنے گا۔ آج قابو میں ہے اس لیے ان کا قصہ ابھی نمٹا دو اور بالآخر اسے آمادہ کر لیا کہ وہ جناب حسین کی کسی رائے کو قبول نہ کرے۔ ابن مرجانہ فارسیہ نے ان کی بات مان کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے اس بات کا مطالبہ کر دیا کہ آپ صرف اس کے حکم پر اتریں ۔ یوں ابن مرجانہ نے کوفیوں کی دلی مراد پوری کر ڈالی۔
٭ ابن مرجانہ کا مطالبہ ظلم اور یزید کی تاکید کے خلاف تھا۔ جبکہ اس میں صرف رافضیوں کی خوشی کا سامان
|