Maktaba Wahhabi

371 - 441
معاشرہ و ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن افسوس! اسی مقام پر آ کر ہمارے شعراء، ادباء، خطباء، مورخین اور قلم نگار اعدائے صحابہ کے دام مکر و فریب میں جا الجھے اور ان کے بنائے منصوبوں کی بھینٹ چڑھتے چلے گئے۔ جن کو کسریٰ کی ایرانی مجوسی حکومت کے سقوط کا بے حد غم تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر انہی جاہلی نعروں کو زندہ کر دیا جن کو اسلام نے موت کی نیند سلا دیا تھا، بالخصوص بنو امیہ کے بارے میں ان اعدائے صحابہ نے بے حد زہر اگلا گویا کہ اسلام سب کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا سوائے بنو امیہ کے۔ پھر وہ ہوا جو نہ ہونا چاہیے تھا کہ امت مسلمہ کے بے خبر طبقہ نے اور ان کے ساتھ ساتھ جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف کوئی روگ تھا انہوں نے اعدائے صحابہ کے اُگلے اس زہر کو چاٹا جو انہوں نے بنو امیہ پر پھنکارا تھا اور وہ بنوامیہ کے محاسن، محامد، خصائل، شمائل، سب کو ہی تو امت مسلمہ کے قلب و ذہن سے حرفِ غلط کی طرح نکال دینا چاہتے تھے۔ ان اعدائے صحابہ نے بنو امیہ کی ہر خوبی سے آنکھیں موندھ لیں ۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ اموی ہی تو تھے جنہوں نے قرآن کو جمع کیا تھا۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ بھی تو اموی ہی تھے جنہوں نے سنت کی سب سے پہلے تدوین کی اور فتوحات اسلامیہ کے دائرہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ اموی کے ہاتھوں اس قدر پھیلا کہ عقل مارے دہشت کے دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن اعدائے صحابہ تو کسی اور ہی مشن پر تھے، وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان چچیروں کی کردار کشی کے نشہ میں دھت تھے جن کے دل آل بیت کی محبت سے سرشار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زادوں کی اس قدر عزت فرماتے تھے کہ ان کو اپنی تین بیٹیاں نکاح میں دیں جبکہ اپنے آل بیت کو اپنی صرف ایک بیٹی نکاح میں دی۔ کیا یہ بنو امیہ کے صدق و صفاء اور محبت و وفاء کی کھلی دلیل نہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عالم آخرت کو رحلت فرماتے ہیں تو آپ کے اکثر عمال بنو امیہ سے تھے جبکہ آل بیت سے ایک بھی عامل نہ تھا۔ بلاشبہ یہ وہ ناقابل تردید حقائق ہیں جو اعدائے صحابہ کے افک و افتراء کی جڑ کاٹ دیتے ہیں ۔ افسوس کہ ہمارے قلتِ تدبر کے ساتھ تاریخ کے مطالعہ نے اور اسلامی سیاسی فقہ کے ماہر علماء کی قلت و ندرت نے اعدائے صحابہ کو پر پھیلانے کا موقعہ فراہم کر دیا اور انہوں نے امت مسلمہ کے جسد میں گھس گھس کر اپنی جگہ بنا لی اور تب سے وہ امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور ان کے عقائد و عبادات کو برباد کرنے میں لگے ہیں ۔ اس کی نظیر ملاحظہ کرنا ہو تو امت عرب کو دیکھ لیجیے کہ وہاں کے نوجوانوں کو خود اپنے اوپر اعتبار اور اعتماد نہیں ۔ وہ اپنے عقائد کو سبائی زہریلے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ باوجود اس بات کے کہ ان کا دین و عقیدہ، رنگ و نسل، قوم قبیلہ اور زبان تک ایک ہے، پھر لطف یہ کہ ان سب کا دشمن بھی ایک ہے، پھر بھی امت عرب تنکوں کی طرح بکھر کر زندگی گزار رہی ہے بلکہ بسا اوقات تو
Flag Counter