Maktaba Wahhabi

370 - 441
کی کتابوں ، روایات، مسائل و فتاویٰ اور اجماع وغیرہ سے بیان کرنے کے بعد ہم اپنی پہلی بات کی طرف لوٹتے ہیں : فی زمانہ ہماری یہ بے حد اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے اصل مجرموں کے چہروں کو بے نقاب کریں اور اس بات سے خبردار اور آگاہ رہیں کہ یہ اعدائے صحابہ کوفی رافضی سبائی امت مسلمہ کے عقیدہ و عمل کو غارت کرنے کے لیے کن کن وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں ۔ ان رافضیوں نے امت مسلمہ کو فتنوں کے گرداب میں گھیرے رکھنے اور ان کے قلوب و اذہان کو دوبارہ جاہلیت کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے آل بیت رسول کے ساتھ ہونے والے مظالم کی آڑ میں مکر و فریب کے گہرے جال بچھائے۔ اس میدان میں مورخین کی تحریروں نے امت مسلمہ کے دلوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کیے ہیں ۔ چونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان اعداء کے مجوسی کبر کا سر توڑا تھا اور کسرویت کے بت کو پاش پاش کر کے مجوسیت کو پیوند خاک کیا تھا، اس لیے ان کے دلوں سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بغض اور کینہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اگر ہم اسلام سے قبل کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں عربوں میں شرافت و سیادت کے علم و حلم اور جود و کرم کے میدان میں جو خاندان سب پر فائق نظر آتا ہے وہ بنو قریش ہیں جو عبد مناف کی اولاد ہیں ۔ پھر یہ خاندان آگے چل کر دو خاندانوں میں تقسیم ہو جاتا ہے بنو ہاشم اور بنو امیہ۔ یہ دونوں خاندان ہمیشہ شرافت و قیادت اور اعلیٰ صفات میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہے۔ اس تنافس و تقابل نے ان دونوں خاندانوں کی عزت و شرافت کو اور چار چاند لگا دئیے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہوئے اور اب عزت و شرافت کے پیمانے بدل گئے۔ قریشی سرداروں نے اس امر کو جان لیا کہ امر نبوت میں منافست و مسابقت کی گنجائش نہیں اور وہ مر کر بھی یہ رتبہ پا نہیں سکتے اس لیے وہ اسلام کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اور اس میدان میں اپنی ساری قوتیں اور صلاحتیں جھونک ماریں ۔ لیکن جب توفیق الٰہی سے اسلام لانے کا شرف نصیب ہوا اور وہ نبوت کا معنی سمجھ گئے تو ایک بار پھر تنافس کے میدان میں اتر آئے۔ لیکن اب کی بار ان کے ہاتھوں میں اس تنافس و مسابقت کے اور ہی پیمانے اور معیارات و موازین تھے اور یہ تھے نیکیوں اور پاکیزہ کاموں میں مسابقت کے پیمانے جن کا گزشتہ جاہلی اقدار سے ذرا بھی تعلق نہ تھا۔ جس کے نتیجہ میں رب تعالیٰ نے روئے زمین کو ان کے آگے سرنگوں کر دیا، فتوحات کے دروازے کھلے، امن و رفاہیت کا دور دورہ ہونے لگا۔ عقیدہ و ثقافت کی حفاظت و صیانت کے لیے جانیں قربان کی جانے لگیں ۔ قرآن کریم کو جمع کیا گیا، سنت نبویہ کی تدوین ہوئی اور کتاب و سنت کے دو مضبوط ترین ستونوں پر قائم اسلامی تہذیب و ثقافت اور
Flag Counter