کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور فرمایا:
’’نگاہ اشک بار ہے، دل غمگین ہے لیکن ہم رب کی ناراضی کا بول نہ بولیں گے۔ اے ابراہیم! ہمیں تیری مصیبت پہنچی ہے اور ہم تم پر غم زدہ ہیں ۔‘‘[1]
اب سب حضرات غور سے دیکھ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس شدت کے ساتھ میت پر بلند آواز سے نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح مصیبت کے وقت چیخیں مار کر رونے سے منع کیا ہے، اسی طرح نوحہ کرنے سے اور اس کو سننے سے بھی منع فرمایا ہے۔[2]
کلینی فضل بن میسر سے روایت کرتا ہے، وہ کہتے ہیں :
’’ہم ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے آ کر اپنی مصیبت کا شکویٰ کیا۔ انہوں نے فرمایا: صبر کر تجھے اجر ملے گا اور اگر تم صبر نہ کرو گے تو تقدیر تو نافذ ہو کر رہے گی البتہ تمہیں گناہ ضرور ہو گا۔‘‘[3]
امام صادق جعفر بن محمد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’صبر اور بلاء (آزمائش) دونوں مومن کی طرف بڑھتے ہیں تو آزمائش اسے صابر پاتی ہے۔ جبکہ آزمائش اور جزع فزع کافر کی طرف بڑھتے ہیں تو آزمائش کافر کو بے صبرا پاتی ہے۔‘‘[4]
محمد بن مکی العاملی المقلب بہ شہید اوّل کہتا ہے:
’’شیخ نے ’’المبسوط‘‘ میں اور ابن حمزہ نے نوحہ کو حرام قرار دیا ہے اور شیخ نے نوحہ کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘[5]
شیخ سے مراد ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی ہے جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہے، اس نے نوحہ کو حرام بھی کہا ہے اور اس کی حرمت پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شیخ طوسی کے دور تک سب شیعہ نوحہ خوانی کی حرمت پر مجتمع تھے جس کو آج ہم حسینیات میں برملا بیان ہوتے سنتے ہیں ۔اب ہم ان
|