شیعوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل کا متقدمین شیعہ علماء کے فتاویٰ سے موازنہ کر کے جائزہ لیں ۔ آیت اللہ العظمی محمد الحسینی الشیرازی لکھتا ہے:
’’لیکن شیخ سے ’’المبسوط‘‘ میں اور ابن حمزہ سے نوحہ خوانی کی مطلق تحریم منقول ہے۔‘‘[1]
شیرازی کہتا ہے:
’’الجواہر‘‘ میں واویلا کرنے اور سینہ کوبی کرنے کی مطلق اور قطعی حرمت پر اجماع کا دعویٰ منقول ہے۔‘‘[2]
نجم الدین ابو القاسم جعفر بن حسن ملقب بہ ’’المحقق الحلی‘‘ لکھتا ہے:
’’شیخ نے تعزیہ کے لیے جلوس کی کراہیت پر اجماع سے استدلال کیا ہے۔ کیونکہ تعزیہ کے جلوس کسی صحابی یا امام سے منقول نہیں ۔ لہٰذا تعزیہ نکالنا اور اسے جلوس میں لے چلنا اسلاف کی سنت کے خلاف ہے۔‘‘[3]
محمد بن مکی العاملی لکھتا ہے:
’’شیخ نے تعزیہ کے لیے دو یا تین دن کا جلوس نکالنا مکروہ لکھا ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ابن ادریس نے یہ کہہ کر اس اجماع کو ردّ کیا ہے کہ یہ تو لوگوں کا محض اکٹھا ہونا اور ایک دوسرے کی زیارت کرنا ہے۔ جب کہ شیخ المحقق نے ان الفاظ کے ساتھ اجماع کی تائید کی ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ یا امام علیہ السلام سے تعزیہ نکالنا اور اسے جلوس میں لے چلنا منقول نہیں لہٰذا یہ اسلاف کی سنت کے مخالف ہو گا۔ گو یہ عمل تحریم کی حد تک نہ بھی پہنچتا ہو۔ میں کہتا ہوں کہ مذکورہ اخبار اس کی حرمت کو بتلاتی ہیں ۔ لہٰذا تزاور (باہمی ملاقات) کی حجت بے معنی ہے۔‘‘[4]
اگرچہ شیخ بحرانی نے نوحہ خوانی کی حرمت کی روایات کے رد کی بڑی کوشش کی ہے لیکن بے سود کہ جب شیخ اور ابن حمزہ نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے تو اس کے بعد اس تاویل کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی کہ اس سے مراد وہ نوحہ ہے جو حرمت پر مشتمل ہو یا جاہلیت کے نوحہ کے مثل ہو۔
شیخ بحرانی نے نقل کیا ہے کہ شیخ الطائفہ نے ’’النہایۃ‘‘ میں اس حرمت کو مقید ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ شیخ بحرانی کا یہ نقل مردود ہے کیونکہ شیخ الطائفہ نے خود اس پر اجماعِ مطلق ذکر کر دیا ہے۔ تو اب ہمارے یہ شیعی مصنف کیا جواب دیں گے؟!!
|