تاریخ شاہد ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگوں کو اختلاف رہا۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے متعدد لوگوں سے معرکے بھی ہوئے لیکن جناب امیر سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوائے کوفیوں کے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ مروی نہیں کہ انہوں نے اس کے حق میں ایسی آزردگی، دل گرفتگی اور رنجیدگی کے ساتھ بددعا کی ہو۔ ہاں صحیح روایات سے اگر ثابت ہے تو صرف ان کوفیوں پر بددعا کرنا ثابت ہے جو دھڑلے سے جناب امیر رضی اللہ عنہ سے محبت کے بلند بانگ دعوے بھی کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ گھناؤ نی سازشوں کے دام ہم رنگ زمین بھی آپ کی راہوں میں بچھاتے تھے۔ حتیٰ کہ بالآخر آپ رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے عین مسجد میں وارکر کے شہید بھی کر دیا۔
کیا ان کوفیوں کے ایسے شرم ناک کردار کے بعد یہ لوگ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے؟ اور ان پر اعتماد کی کوئی سبیل ہو بھی کیونکر کہ جب امیر المومنین جناب علی رضی اللہ عنہ صاف صاف ان سے نفرت اور کراہیت کا اظہار فرما رہے ہیں ؟!!
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کوفیوں پر ان الفاظ کے ساتھ بھی ایک بددعا منقول ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اے اللہ ان کے گھروں میں ذلت گھسا دے، ان کے سینے ہیبت سے بھر دے، ان کے دلوں کو مٹا دے جیسے نمک پانی میں مل کر مٹ جاتا ہے۔‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جس نے ان کوفیوں کے ذریعے سے حملہ کیا اس نے ایک چوک جانے والے تیر سے حملہ کیا۔‘‘
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جناب علی رضی اللہ عنہ کو قصر سے باہر ہاتھ میں درہ پکڑے دیکھا۔ جناب عمرو رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا:
’’اے عمرو! میں اس سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ یہ والی لوگ عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں ، لیکن یہ کیا کہ یہاں تو عوام والیوں پر ستم کرتے ہیں ۔ اے اللہ! میرے اور ان کے درمیان تفریق کر دے اور ان پر مجھ سے بھی برا مسلط کر دے۔‘‘[1]
جب ان کوفیوں کا جناب علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ رویہ تھا حالانکہ وہ صاحب سلطنت و شوکت اور لشکروں کے قائد تھے، معاملات کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں تھیں لیکن پھر بھی یہ کوفی متمرد و سرکش تھے اور اتنے نافرمان کہ جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرطِ غیظ سے ان پر بددعائیں کیں ، تو بھلا ان نامرادوں نے جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما
|