Maktaba Wahhabi

319 - 441
ان کوفیوں سے بڑے تلخ تجربات ہوئے تھے۔ جناب حسن رضی اللہ عنہ کو اس بات کا قطعی یقین تھا کہ یہ پرلے درجے کے غدار اور دغا باز ان خطوط میں آل بیت کی جس محبت کو خوب بڑھا چڑھا کر ذکر کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ یہ نامراد آل بیت رسول سے کینہ، نفرت اور بغض رکھتے ہیں اور ہر وقت ان کا خون بہانے کے درپے رہتے ہیں۔ امت مسلمہ کے صلحاء لوگوں کو کوفہ جانے سے منع کرتے تھے اور دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اس کوفہ سے نجات دے۔ چنانچہ سفیان ’’فرات القزاز‘‘ سے روایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے: ’’سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو جناب کعب احبار نے انہیں ان الفاظ کے ساتھ کوفی فطرت پر متنبہ کیا: کوفہ نافرمانوں کا مرکز اور ہر لاعلاج بیماری کا گڑھ ہے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ ’’لا علاج بیماری‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو کہنے لگے: نفس کی وہ خواہشات جن سے شفا نہیں ملتی۔‘‘ ابو صالح حنفی کہتے ہیں : ’’میں نے سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے مصحف اٹھا کر اپنے سر پر رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کے اوراق کو ہلتے دیکھا۔ پھر فرمانے لگے: اے اللہ! ان لوگوں نے مجھے امت میں اس کی خیروں کے ساتھ رہنے سے روک دیا، پس تو مجھے امت کا ثواب عطا فرما۔ اے اللہ! میں ان سے اور وہ مجھ سے تنگ ہیں ، مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے نفرت ہے، ان لوگوں نے مجھے میری طبیعت، عادت اور ان اخلاق کے خلاف پر ابھارا جن کو میں پہچانتا نہیں ۔ اے اللہ! تو مجھے ان سے بہتر لوگ عطا فرما اور انہیں مجھ سے بھی برا دے۔ اللہ! ان کے دلوں کو یوں فنا کر دے جیسے نمک پانی میں گھل کر فنا ہو جاتا ہے۔‘‘ راوی ابراہیم بیان کرتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مراد اہل کوفہ تھے۔[1] خلیفہ چہارم امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اے اللہ! میں ان سے اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں ، میں ان سے اور یہ مجھ سے آزردہ ہیں ، پس تو مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے راحت دے دے۔ ان کے بدبخت ترین نے میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے اور ان کو میری داڑھی پر رنگنے سے گریز نہ کیا۔‘‘[2]
Flag Counter