Maktaba Wahhabi

318 - 441
اور فتنوں کا گڑھ تھا۔ جس قدر سازشوں کے جال یہاں بنے جاتے تھے کسی دوسرے شہر میں اس میدان میں کوفہ کی ہم سری کرنے کی تاب نہ تھی۔ اسی لیے امت مسلمہ کے اخیار و ابرار نے کوفہ کی بے حد مذمت بیان کی۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’شیطان نے کوفیوں میں انڈے دئیے، ان کو سینچا اور ان سے بچے نکالے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے اللہ! ان کوفیوں نے مجھ پر امر کو ملتبس کر دیا تو بھی ان پر امر کو ملتبس کر دے اور ان پر ایک ثقفی نوجوان مسلط کر، جو ان کے نیکوں کو قبول نہ کرے اور ان کے بروں سے درگزر نہ کرے۔‘‘[1] سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کوفیوں پر مطلق اعتبار نہ کرتے تھے اور نہ ان کے آئے کسی خط کی طرف التفات ہی فرماتے تھے، کیونکہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بخوبی دیکھ لیا تھا کہ پہلے انہوں نے ان کے والد ماجد کے ساتھ دغا بازی کی، پھر خود ان کے ساتھ بھی فریب کاری سے دریغ نہ کیا۔ یزید الاصم بیان کرتا ہے: ’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما مدائن اترے، قیس بن سعد بن عبادہ( رضی اللہ عنہ ) مقدمہ میں تھے۔ پھر ’’انبار‘‘ اترے۔ وہاں ان لوگوں نے کدال کا وار کر کے انہیں زخمی بھی کیا اور خیمہ بھی لوٹ لیا۔‘‘ یزید اصم کہتا ہے: ’’ایک موقعہ پر میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ کوفیوں کا ایک خط آیا۔ آپ نے اس کی مہر کھول کر حتیٰ کہ اس کے عنوان تک کو دیکھنا گوارا نہ کیا اور خادمہ سے سلفچی منگوا کر اس خط کو اس سلفچی میں پانی سے دھو کر صاف کر ڈالا۔‘‘ یزید کہتا ہے: میں نے پوچھا: اے ابو محمد! یہ کن کے خطوط تھے؟ تو فرمانے لگے: یہ ان کے خطوط تھے جو حق کی طرف پلٹ کر نہیں آتے اور باطل سے دست کش نہیں ہوتے، یہ عراقیوں کے خطوط تھے جن کو میں نے دھو کر مٹا ڈالا۔[2] یہ تھا سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ان کوفیوں کے بارے میں دو ٹوک موقف جو پکار پکار کر بتلاتا ہے کہ جناب حسن رضی اللہ عنہ کو ان کوفیوں پر ذرا بھروسہ نہ تھا اور وہ ان کوفیوں کو بڑی گہرائی سے جانتے تھے کیونکہ انہیں
Flag Counter