شدید متاثر ہے۔ لیکن اس کی تاریخی ذمہ داری کی تحدید اہل کوفہ تک محدود ہے جنہوں نے آل بیت کے قتل کا ارتکاب کیا اور وہ بھی ان کی مدد و نصرت کے نعروں کی آڑ میں کیا۔
جب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق کی طرف عازم سفر ہو گئے اور بعض والیوں کو بھی اس کی خبر مل گئی تو انہوں نے ابن زیاد کو سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوئے خطوط لکھے، جن میں اسے اس بات سے ازحد ڈرایا کہ وہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو معمولی سی گزند پہنچانے کا بھی نہ سوچے اور خوب سمجھ لے کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ لوگوں کو سب سے
زیادہ محبوب ہیں ۔ چنانچہ مروان بن حکم نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا:
’’اما بعد! حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) تیری طرف آ رہے ہیں ۔ یاد رکھنا کہ یہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر ہیں جو خود جگر گوشہ رسول ہیں ۔ اللہ کی قسم! ہمیں حسین( رضی اللہ عنہما ) سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ۔ خبردار جوش میں آ کر ایسا کوئی کام نہ کر بیٹھنا جس کی تلافی تم کر نہ سکو، نہ عوام اس کو بھلا سکیں اور نہ اس کے ذکر کو کبھی ترک کر پائیں ۔ و السلام!‘‘ [1]
جبکہ عمرو بن سعید بن عاص نے عبیداللہ ابن مرجانہ فارسیہ کو ان الفاظ کے ساتھ فہمائش کی:
’’اما بعد! حسین تمہاری طرف آ رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ یا تو حسن سلوک کیا جاتا ہے یا ان کے درپے آزار نہیں ہوا جاتا۔‘‘
اسماعیل بن علی خطبی کہتے ہیں :
’’سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا مکہ سے عراق کی طرف جانا تب ہوا جب بارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل بن ابی طالب کے ہاتھ پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ چلے آنے کی دعوت پر مشتمل بے شمار خطوط بھی لکھ دئیے ہوئے تھے۔ چنانچہ خطوط اور قاصدوں کی آمد اور اہل کوفہ کے بیعت کر لینے کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔‘‘[2]
لیکن افسوس کہ اہل کوفہ نے ان تنبیہات اور تاکیدات کو ذرا درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور وہ ایسا کرتے بھی کیوں ؟ غدر و خیانت اور جفا و بے وفائی تو ان کی رگ رگ میں پیوست تھی۔ بھلا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کرنے والوں کو بھی آخرت کے انجام بد اور شریعت کی مخالفت کا کوئی اندیشہ یا ڈر خوف ہو سکتا ہے؟!!
یہ بات معروف اور معلوم ہے جس کی شہادت خود شیعہ مآخذ و مصادر بھی دیتے ہیں کہ کوفہ عراق تمام شرور
|