Maktaba Wahhabi

316 - 441
’’میں امید کرتا ہوں کہ حسین( رضی اللہ عنہما ) کا خروج کسی ایسے امر کے لیے نہ ہو گا جو تمہیں ناگوار ہو اور جس بات سے بھی الفت اور اتحاد پیدا ہوتا ہو اور شورش ختم ہوتی ہو میں اس بات کی انہیں ضرور نصیحت کروں گا۔‘‘ اس کے بعد سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو رات گئے تک سمجھاتے رہے اور یہ کہا: ’’میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کہیں کل کو تم بے یار و مددگار ہلاک نہ ہو جاؤ ، عراق تو ہرگز مت جاؤ اور اگر تمہیں یزید کے خلاف خروج کرنا ہی ہے تو حج ختم ہونے تک ٹھہرے رہو، تب لوگوں سے ملو جلو، ان کی رائے معلوم کرو، پھر اپنی رائے دیکھنا۔ یہ ۱۰ ذی الحجہ ۶۰ ہجری کی رات تھی۔ لیکن سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بات نہ مانی اور عراق کی طرف عازمِ سفر ہو گئے۔‘‘[1] سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ قاصد بھیجا۔ اس قاصد کے ساتھ بنی عبدالمطلب کے مردوں ، عورتوں اور بچوں پر مشتمل انیس افراد مکہ آ پہنچے جن میں آپ کی اور آپ کے بھائی کی اولاد اور خواتین بھی شامل تھیں ۔ ان کے پیچھے محمد بن حنفیہ بھی چلے گئے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مکہ آ ملے۔ محمد نے کہا کہ میرے رائے میں ابھی یزید کے خلاف خروج کا وقت نہیں ۔ لیکن سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی بات نہ مانی، جس پر محمد نے اپنی اولاد کو ساتھ نکلنے سے روک دیا اور ان میں سے کسی کو بھی نہ نکلنے دیا جس کا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قدرے رنج تھا۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم اپنی اولاد کو ادھر جانے سے روک رہے ہو جہاں مجھے شہادت ملے گی؟ محمد نے جواب دیا: مجھے اس کی حاجت نہیں کہ آپ شہید ہوں اور آپ کے ساتھ یہ بھی شہید ہوں ، گو میرے لیے آپ کی مصیبت ان کی مصیبت سے بڑی ہے۔ ادھر عراقیوں نے خط پہ خط لکھ مارے اور قاصدوں کا تانتا بندھ گیا جو عراق چلے آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ساٹھ شیوخ اور اپنے اہل بیت کے ساتھ بروز سوموار دس ذی الحجہ ۶۰ ہجری کو عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔[2] ان جملہ نصوص کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سارے فتنہ کی آگ کا پہلا ایندھن اہل کوفہ تھے جن کی فتنہ انگیزیوں کا سلسلہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شرکت سے شروع ہو کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے مار ڈالنے، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زخمی کرنے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غداری کر کے انہیں شہید کرنے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اگرچہ جغرافیائی اور اعتقادی اعتبار سے اس جرم کی شناعت میں تعمیم ہے جو عراقی عوام سب کو شامل ہے بالخصوص معاصر عراق پر بھی جو اپنے افکار اور کینوں میں اہل کوفہ کی تاریخی بداعتقادی و بداطواری سے
Flag Counter