’’ہم نے ایک شیر کو برانگیختہ کیا ہے۔‘‘
جب ولید گھر پہنچا تو اس کی بیوی اسماء بنت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کہنے لگی: کیا تم نے حسین( رضی اللہ عنہ ) کو گالی دی؟ ولید نے کہا: ابتدا انہوں نے کی تھی۔ جس پر اسماء کہنے لگی: اچھا چلو حسین( رضی اللہ عنہ ) کی گالی کا جواب تم نے ان کو گالی دے کر دے دیا، لیکن اگر وہ تیرے باپ کو گالی دیں تو کیا تم بھی ان کے باپ کو گالی دو گے؟ ولید نے کہا: نہیں !
سیدنا حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اسی رات مکہ کو نکل گئے۔ صبح لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی۔ جب سیّدنا حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں تو راتوں رات مکہ نکل گئے ہیں ۔ مکہ پہنچ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر جا اترے۔[1]
یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ خلافت کا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مطالبہ اور معاملہ بے حد نرمی کا تھا جس کا ثبوت مدینہ کے والی کے رویے سے ہوتا ہے جو سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھائی اور نئے خلیفہ کا چچا تھا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے سر سے عمامہ اتار پھینکا لیکن اس نے جواب میں کچھ نہ کہا اور نہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر ان کا کوئی مواخذہ کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ کے دل آل بیت رسول کی بابت سلامتی سے معمور تھے اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اہل ایمان کے درمیان اختلاف رائے جائز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دور کے خاص و عام سب کے سب جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ سے بخوبی واقف تھے، لیکن افسوس کہ اعدائے صحابہ نے مسلمانوں کی باہمی صلہ رحمی اور مودت و محبت کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
جب یزید کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ضرور خروج کریں گے تو اس نے انہیں اس ارادہ سے باز رکھنے کی نہایت بلیغ کوشش کی اور اس غرض کے لیے اس نے کبار اہل بیت کو بھی جناب حسین رضی اللہ عنہ پر اثر انداز ہونے کو کہا، لیکن یزید اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ چنانچہ یزید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مکہ خروج کر جانے کی خبر لکھ بھیجی۔ یزید کا خیال تھا کہ مشرق کے لوگوں نے انہیں آ کر خلافت کی طمع دلائی تھی۔ یزید نے لکھا کہ آپ ان میں صاحب علم و تجربہ ہیں ۔ اگر تو حسین( رضی اللہ عنہما ) نے خروج کا ارادہ کیا ہے تو انہوں نے قرابت کو قطع کیا ہے، آپ اہل بیت کے بڑے اور سب کے منظور نظر ہیں ، انہیں تفرقہ سے باز رکھنے کی کوشش کیجیے، اور چند اشعار بھی لکھ بھیجے جن میں خروج نہ کرنے کا نہایت بلیغ مطالبہ تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں یہ لکھ بھیجا:
|