Maktaba Wahhabi

313 - 441
بن عنبسہ بن ابی سفیان نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ جب بنو امیہ نے ابن عثمان کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنے ماموں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جا ملے۔[1] امر خلافت ایک بار پھر شوریٰ کے ہاتھ میں تھا۔ تو اب کی بار بھی شوریٰ نے خلافت کے لیے خیر امت کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ جیسا کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر حرف گیری کرنے والوں کا شب و روز کا وظیفہ ہے؟ یا ان لوگوں کو شوریٰ کی بابت چرب زبانی کرنے میں مزا آتا ہے اور وہ بھی ان باتوں کے علم کے بغیر کہ شوریٰ کے رجال کون ہوتے ہیں ؟ شوریٰ کی مجلس کیسی ہوتی ہے؟ شوریٰ کے اخلاق و ضوابط کیا ہیں ؟!! ان لوگوں نے خلافت اسلامیہ کے شورائی نظام کو معاصر انتخابات جیسا سمجھ لیا ہے جو نظریاتی ہیں ، جن میں امت کی اور دین کی کسی مصلحت کی رو رعایت نہیں ہوتی۔ کیا آج مشرق یا مغرب میں کوئی شخص جماعتی، ملکی اور مفاد پرستانہ جذبات سے خالی اور پاک ہو کر بھی انتخابات لڑ سکتا ہے؟ کیا آج انتخابات کا کوئی امیدوار اِن سیاسی اور فکری ہلاکت آفرینیوں کی دلدلوں میں گھسے بغیر بھی اپنی مراد تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا آج کے ہر ضابطۂ اخلاق سے آزاد انتخابات خلافت اسلامیہ کے نظامِ شوریٰ سے ادنیٰ سی بھی مماثلت رکھتے ہیں ؟!! بلاشبہ شوریٰ حکومت اسلامیہ کے وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے، لیکن شوریٰ اس وقت ہی سود مند ہے جب ایک اسلامی معاشرہ حدود شرعیہ اور امت کے بلند تر مصالح کی رو رعایت کرنے پر بھی آمادہ ہو۔ روایتی شوریٰ اور نظریاتی انتخابات نے امت مسلمہ کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ کتنے ہی سنگ دل، بے رحم، سرکش، ہٹ دھرم، باغی و طاغی سرکش رہنما نظریاتی انتخابات کی راہ سے اقتدار تک پہنچے اور امت کی قسمت پر براجمان ہو کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ وہ لوگ شوریٰ اور آزادانہ انتخابات کے بدترین مخالف ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں نے امت کے سینے میں جو چرکے لگائے تاریخ کے اوراق ان کی داستانوں سے معمور ہیں ۔ اس بنا پر واجب ہے کہ حکومت کے وسیلہ کی منہجیت کا مدار اولویت ہو، نہ کہ اولویت حکومت تک پہنچنے کے وسیلہ کا مدار ہو، ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی حکومت شرعی حکومت ہو جو عقیدہ و دین کی نصوص پر کاربند ہو، نہ یہ کہ ایک حاکم نام کا تو مسلمان ہو لیکن اس کا طرزِ حکومت لا دین، ملحدانہ اور لبرل وغیرہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اولویت دستور اسلامی کو مستحکم کرنے اور اس کو نافذ العمل بنانے کے لیے ہو جبکہ حکومت کا حصول اور حاکم کی آزادی اس کے نزدیک ثانوی درجے میں ہو۔ نظام شوریٰ کو جہاں نظامِ اسلام کے
Flag Counter