رائے ثابت ہے گو اجماعِ تام نہیں ملتا۔ لیکن پھر بھی نکتہ چینوں اور طعنہ زنوں کے لیے انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ملتی۔ لیکن اگر بات افضلیت کی کی جائے کہ اس وقت ولایت کے زیادہ لائق کون تھا، تو بلاشبہ اس وقت ایک نہیں ہزاروں بلکہ بے شمار ایسے ’’رجال‘‘ امت میں موجود تھے جو ہر اعتبار سے یزید سے زیادہ امر خلافت کے اہل اور لائق تھے۔ لیکن امت نے اس فیصلے کو قبول کیا، اہل قوت و شوکت نے اس کی موافقت کی اور اس پر راضی رہے۔ اس مقام پر ہم بغیر صحیح معلومات کے غلط سلط باتیں پھیلانے والے کو صرف یہی کہہ سکتی ہیں کہ وہ کسی ثبوت کے بغیر بہتان طرازی، الزام تراشی، کردار کشی اور کسی بھی واقعہ اور حادثہ کی غلط عکاسی اور منظر کشی کرنے سے گریز کرے۔
جب حقیقت کا ان دونوں پہلوؤ ں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قرار واقعی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے علم و تجربہ، فراست و مہارت اور تدبر و سیاست کے ذریعے سے صحیح رہنمائی کی، لوگوں کو قریب کیا، ان سے مشورہ لیا اور انہیں مشورہ میں شریک کیا، جس پر لوگوں نے انہیں مشورہ دیا اور برکت کی دعا دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فتنہ کا دروازہ کسی طور پر بھی کھلا نہ رہنے دیجیے گا۔ بعد کے واقعات جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے و فہم کی تصویب کرتے ہیں ۔ چنانچہ جیسے ہی یزید راہی ملک عدم ہوا امت کی وحدت کی لڑی ٹوٹ کر بکھر گئی اور اطراف و اکناف میں فتنوں کی آگ بھڑک اٹھی اور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ شوریٰ کے نظام کو یزید نے معطل کر دیا تھا تو یزید کی وفات کے بعد اب شوریٰ نے آگے بڑھ کر اپنا کردار کیوں نہ ادا کیا اور امر خلافت کے لیے امت کے رجالِ خیر کو آگے کیوں نہ کیا؟ بالخصوص معاویہ بن یزید بن معاویہ کا کردار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی بنیاد ہی شوریٰ پر رکھی تھی۔
چنانچہ معاویہ(بن یزید) یزید کی وفات کے بعد ربیع الاول ۶۴ ہجری میں خلیفہ منتخب ہوا۔ معاویہ کی کنیت میں اختلاف ہے، ابو عبدالرحمن، ابو یزید اور ابو لیلیٰ تین نام کتب تاریخ میں ملتے ہیں ۔ جب معاویہ (بن یزید) کا انتقال ہونے لگا تو لوگوں نے کہا: آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نام زد کیوں نہیں کر جاتے؟ تو کہنے لگا: ’’میں نے خلافت کی حلاوت تو چکھی نہیں اور اس کی تلخی جھیل نہیں سکا۔‘‘[1]
اس کے بعد خلیفہ کے اختیاری معاملہ کو بالکلیہ طور پر امت کے حوالے کر دیا اور اپنے کسی قول و فعل سے خلیفہ کے اختیار و انتخاب میں دخل تک نہ دیا۔
معاویہ(بن یزید) نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے باپ کے مقرر کیے کسی عامل کو ہرگز نہ بدلا۔ معاویہ ایک خوبرو، سرخ و سپید، نیک سیرت نوجوان تھا۔ اکیس سال کی مختصر سی زندگی پا کر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ عثمان
|