نہیں بلکہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جیسے دو خلفائے راشدین کے بعد کس نے امت کو متحد کیا؟ کس نے امت کو دوبارہ اس کی عزت و رفعت پر متمکن کیا؟ کس نے از سر نو فتوحات کا وسیع تر سلسلہ جاری کیا؟ کیا تاریخ کسی ایسے شخص کا پتا بھی دیتی ہے جس نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مصاحبت اختیار کرنے کے بعد ان سے اکتا کر اور دل آزردہ ہو کر انہیں اور جماعت کو چھوڑ دیا ہو؟ کیا ہمیں روزنِ تاریخ سے کوئی محتاج نظر پڑتا ہے جس کی دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں حاجت روائی نہ کی گئی ہو اور اس کی کسمپرسی اور لاچارگی کا مداوا نہ کیا گیا ہو؟ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوا ایسا کون ہے جس سے امت نے اس طرح محبت کی ہو جیسی اس نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کی ہے؟ یہ اور نہ جانے اور کتنے فضائل و مناقب ہیں جو سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے نامۂ اعمال میں درج اور امت کے دلوں پر نقش ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ، اگرچہ یہ طعنہ زن زبان دراز سبائی سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک دور کی طرف خود ساختہ کتنے ہی حوادث و مصائب کیوں نہ منسوب کرتے رہیں ، جن کی حیثیت اس شور و شغب سے زیادہ کی نہیں جو دیکھنے یا سننے کے لائق نہیں ۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اونچے اور جلیل القدر کردار پر انگلیاں اٹھانے والے اور شوریٰ شوریٰ کا نام لے کر ٹسوے بہانے والے اور جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ غل مچانے والے کہ انہوں نے شوریٰ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا، خود کو یوں ظاہر اور پیش کرتے ہیں جیسے امت کی شیرازہ بندی کا سہرا انہی کے سر ہے اور جیسے روم کی سرکشی اور خودسری کو کچل کر خاک میں ملانے والے یہی جغادری اور خون آشام معرکوں کے شہسوار ہیں اور ان کے یہ کارنامے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کارناموں سے کسی طرح کم نہیں جو روزِ قیامت تک کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے، لیکن افسوس کہ یہ حضرات یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو سب سے زیادہ شوریٰ پر عمل کرنے والے تھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تو شوریٰ سے ہی تعبیر تھا۔ لیکن کوئی سچ بولنا اور انصاف کا دامن تھامنا بھی چاہے تو تب نا!!
کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے انتخاب کی بابت کس کس سے مشورہ نہ کیا؟ کس کس دروازے پر دستک نہ دی؟ کیا ہر قبیلہ کی طرف وفود نہ بھیجے؟ کیا لوگوں سے رائے نہ لی گئی اور انہوں نے اپنی آراء پیش نہ کیں ؟ کیا اقالیم و قبائل کے وفود نے آ آ کر اس مسئلہ میں شرکت نہ کی اور اپنی رضا کا اظہار کر کے برکت کی دعائیں نہ دی تھیں ؟ تاریخ کی کتابیں ان کے ذکر سے معمور ہیں ۔[1]
ان واقعات کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ یزید کا استخلاف شوریٰ سے تھا جس میں اغلبیت کی
|