Maktaba Wahhabi

310 - 441
بیعت کی۔[1] سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے زندگی بھر اپنے سب والیوں اور گورنروں کے سامنے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بابت اپنا یہی منہج قائم رکھا، اسی کی تاکید کے ساتھ یزید کو وصیت بھی کی اور یزید نے بھی اسی نہج کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ یزید میں اپنے والد ماجد کا سا سیاسی تدبر، معاملہ فہمی، صبر و سیادت اور زمامِ حکومت سنبھالنے کا تکلف اور بناوٹ سے خالی سلیقہ اور طریقہ نہ تھا اور نہ لوگ اسے اس نگاہ سے دیکھتے تھے جیسے وہ اس کے والد کو دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے تین جلیل القدر صحابہ اور بزرگوں ، سیّدنا حسین، سیّدنا ابن زبیر، اور سیّدنا عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے نزدیک یزید کا انتخاب شوریٰ کی حقیقت اورروح سے خالی تھا اور نہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت سے میل ہی کھاتا تھا۔ ان حضرات نے امر خلافت کے لیے اپنی اولادوں کو آگے نہ کیا تھا۔ جبکہ باقی امت نے یزید کی بیعت کر لی جو معروف ہے۔ یزید کی خلافت کی بابت شوریٰ پر ہمارا یہ نقد برحق ہے خواہ اس میں جمہور امت بھی شامل تھی۔ لیکن یزید کا استخلاف اس تناظر میں نہ تھا بلکہ امت کی وحدت اور اس کی سلامتی کے تناظر میں تھا۔ اگر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اس اجتہاد کو کہ دو نقصانوں میں سے ہلکے کو اختیار کیا جائے، ترک کر دیتے تھے تو خلافت کے کئی امیدوار کھڑے ہو جاتے اور ہر ایک کو اعوان و انصار اور یار و مددگار بھی میسر آ جاتے۔ بھلا بتلائیے کہ ان سب کو ایک کون کرتا، اس پر مستزاد یہ کہ خوارج کب سے تاک میں بیٹھے تھے کہ جس طرح بھی بن پڑے امت مسلمہ کے عقیدہ و ایمان کے وجود میں بدعت و سبائیت کے پنجے گاڑ دئیے جائیں ۔ اس لیے اگرچہ یزید کا انتخاب افضل نہ تھا لیکن ضرر میں کم اور وحدت امت کا ضامن زیادہ تھا۔ جیسا کہ سیّدنا یسیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بات مذکور ہو چکی ہے۔ اس لیے ہمارا یہ کہنا بے جا نہیں کہ یزید کے انتخاب کی بابت سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر زبان چلانے والوں نے اس امر کا صرف ایک زاویہ سے ہی جائزہ لیا ہے۔ جبکہ وہ امت کی واقعیت اور حقیقت احوال سے جاہل ہیں بلکہ وہ امت کی گھات میں بیٹھے دشمن کوفیوں کی باطنیت اور مکر و ایہام سے تجاہل برت رہے ہیں ۔ لیکن صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لیے کینہ، حسد، خود غرضی، نفس پرستی، خود رائی، لاچارگی اور جہل و بے علمی سے خالی ہونا بھی تو ناگزیر ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ایک دانا و بینا ذی ہوش مومن سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امت سے محبت اور اس کی وحدت کی شدید حرص کے دامن پر تہمت کا کوئی داغ لگانے کی جرأت ہرگز بھی نہ کرے گا اور یہ کوئی مفروضہ
Flag Counter