Maktaba Wahhabi

309 - 441
نہ کرتے تھے۔ بلکہ یہ حضرات تو سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و بردباری اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک دیکھ کر ان پر رشک کرتے تھے، جو لوگوں کے دلوں میں ان کے بارے میں کسی کینہ کو باقی رہنے نہ دیتا تھا۔ البتہ کوفیوں کا معاملہ دوسرا تھا، وہ رب کے ہاں سے اور ہی دل لائے تھے جہاں خیر کا گزر تک نہ ہوتا تھا، ان کے دلوں کے کینوں سے امت مسلمہ کا کوئی بزرگ نہ بچ سکا۔ جبکہ دوسری طرف سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ آل بیت رضی اللہ عنہم کو بے کھٹکے جو چاہتے تھے کہہ دیتے تھے۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ آل بیت رضی اللہ عنہم کا امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا مقام و مرتبہ ہے اور ان بزرگ ہستیوں کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا قرب حاصل ہے۔ پھر آل بیت حسین رضی اللہ عنہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی چچیری اولاد بھی تھے۔ دونوں کا نسبعبد مناف پر جا کر ایک ہو جاتا تھا۔ اب اس بات میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ جو دونوں بھائیوں اور دو چچوں میں صلح اور خیر کے ارادہ کے بغیر زبردستی جا گھسے وہ دراصل شقاق و نفاق اور انتشار و افتراق کا داعی ہے جو رشتہ داریوں اور قرابتوں کو توڑنا چاہتا ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تعاون و تواصل اور دلوں کی شفافیت کے اس ماحول اور حال کو باقی رکھنے پر بے حد حریص تھے اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ اہل کوفہ جو فتنوں اور شرارتوں کے سرغنہ ہیں ، وہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خلافت کے حصول پر بھڑکانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں گے اور آپ نے حالات کے تناظر سے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ بالآخر ایسا ہو کر رہے گا اور آپ کو یہ بھی بخوبی علم تھا کہ اس میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی نیک نیتی کی بنا پر عذر پر ہوں گے اور اس امر کے اصل مجرم جناب امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قاتل، سکہ بند شریر کوفی ہوں گے۔ چنانچہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں اس بات کا شدید اہتمام رکھا کہ امت پر جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو خوب خوب اجاگر کریں اور کسی بھی طور پر ان کے ساتھ تصادم کی صورت پیدا نہ ہونے دیں ۔ آپ کی شدید تمنا تھی کہ اس بات کا اہتمام پوری تاکید کے ساتھ آپ کی وفات کے بعد بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے مرض الموت میں اپنے بیٹے یزید کو بلا کر اسے تاکید کے ساتھ وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’حسین بن علی، فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو دیکھنا۔ وہ لوگوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ، ان سے صلہ رحمی کرنا، نرمی کا برتاؤ کرنا، تمہارے لیے ان کا معاملہ درست رہے گا اور اگر ان سے کسی بات کا صدور ہو تو مجھے امید ہے کہ اللہ تمہیں ان سے ان لوگوں کے ذریعے سے کافی ہو جائے گا جنہوں نے ان کے باپ کو قتل کیا اور ان کے بھائی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔‘‘ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پندرہ رجب ۶۰ ہجری کو وفات پائی اور لوگوں نے ان کے بعد یزید کی
Flag Counter