آگ سے معمور کرنے کے لیے انگارے جلانے کو رواج دیا اور تو اور، ان لوگوں نے یہ تک گھڑ لیا کہ مساجد میں دھونی دینا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ یہ برامکہ عربوں کی حکومت کو عجمیوں کے ہاتھوں اور آزاد دین دار شرفاء کی حکومت کو ملحد بے دین غلاموں کے ہاتھوں برباد کروانے میں کامیاب رہے۔ ان لوگوں نے اپنے نفوس میں عربوں اور خلافت اسلامیہ کے خلاف کینہ پال رکھا تھا، ہر وقت اس کی بربادی کے منتظر رہتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہر کوڑھ مغز، بے لگام اور بے صبر بخیل کو اپنے گرد اکٹھا کیا، ان کے سامنے کھل کر فلسفیانہ نظریات کو رکھا جو اب تک چھپاتے چلے آ رہے تھے۔ لوگوں کو قریب کرنے کے لیے ان پر داد و دہش کے دروازے کھول دئیے۔ یوں برامکہ نے اسلامی معاشرہ سے وہ لوگ چھانٹ چھانٹ کر الگ کر لیے جن کو نیکی و راستی اور رشد و ہدایت سے کوئی سروکار نہ تھا، کسی نے صحیح کہا ہے:
عَنِ الْمَرْئِ لَا تَسْئَلْ وَ سَلْ عَنْ قَرِیْنِہٖ
فَکُلُّ قَرِیْنٍ بِالْمَقَارِنِ یَقْتَدِیْ
’’آدمی کے بارے میں نہ پوچھ بلکہ اس کے مصاحب و ہم نشین کے بارے میں پوچھ کہ آدمی ہمیشہ اپنے ہم مجلس اور ہم صحبت کی سیرت کو اپناتا ہے۔‘‘
ان برامکہ نے ہدایت کے نام پر سراپا گمراہی ایک مجلس قائم کی ہوئی تھی جہاں اسلام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے خفیہ منصوبے تشکیل دئیے جاتے تھے۔ برامکہ نے اپنی گمراہی کو اطراف و اکناف میں پھیلانے کے لیے معتزلہ، امامیہ اور موبذان -یہ مجوسیوں کے قاضی ہوتے ہیں - میں سے چودہ نام وَر آدمیوں کا انتخاب کیا ہوا تھا، جو شر و فساد میں طاق اور اپنی مثال آپ تھے۔ مذکورہ موبذان مجوسیوں کا بااعتماد اور خاص آدمی تھا۔‘‘[1]
ہم اپنے ذی شعور اور دانش مند قاریوں پر یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ روافض اپنے اس مکر پر آج تک جمے ہوئے ہیں ۔ یہی ان کا عقیدہ ہے، گمراہی کے انہی ہتھیاروں سے لیس یہ سبائی اسلام کے خلاف محاذ آراء ہیں ، یہ رافضی غیرتِ اسلامی اور دینی حمیت سے محروم غافل مسلمانوں کی بے خبری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے آتے ہیں اور اب تک بھی غیرت و حمیت اور صحیح دینی و تاریخی علم سے محروم طبقہ ہی ان کا آسان شکار بنتا چلا آ رہا ہے۔ سبائیوں نے بد اعتقادی اور مکر و فریب کے انہی ہتھیاروں سے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما پر حملہ کیا تھا اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی میں اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کر دیں اور ان پر یہ بہتان
|