٭ … اس پر کس نے عمل کیا؟
٭ … اس قول کو کون تسلیم کرتا اور صحیح مانتا ہے؟
٭ … کیا اس بات کی خود سیّدنا علی رضی اللہ عنہ وصیت اور حکم کر گئے تھے؟
٭ … پھر انہوں نے خود سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کا وارث کیوں نہ بنایا؟
٭ … اور کیا یہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے؟
٭ … اگر خلافت و امامت صرف اولاد علی و حسین رضی اللہ عنہما ہی میں روا ہے تو پھر خود جناب حسن رضی اللہ عنہ امر خلافت سے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار کیوں ہوئے تھے اور مسلمانوں نے اس سال کا نام ’’عام الجماعت‘‘ (باہمی اتفاق و اتحاد کا سال) کیوں رکھا؟
جب ان نام نہاد الزامات و اتہامات کا تاریخ اسلام میں نام و نشان تک نہیں ملتا تو ہم پر لازم ہے کہ ہم امت کے اسلاف اکابر اور ائمہ اعلام کی بابت شکوک و شبہات پیدا کرنے والے ان افکار کے پھیلانے والوں کو جانیں اور پہچانیں ، اور اسلام کی ثابت اور کھری تاریخ کی بیخ کنی کرنے والی ان روایات کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کریں ۔ جبکہ اس جعلسازی کا سنگین ترین پہلو یہ ہے کہ ان جعلسازوں کو ان جعلی روایات کی خطرناکی کی ذرا پروا نہیں ۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے حساس قلب و نظر رکھنے والے درد مند لوگ ان رافضیوں کی تاک میں رہیں اور ان کی ظاہری اور پوشیدہ ہر ہر حرکت پر کڑی نگاہ رکھیں ۔ ان کی شخصیت، کردار اور عقیدہ و عمل کو قلم سے طشت از بام کریں ، تاکہ خوابِ غفلت میں پڑے ہوؤں کو بیدار کریں ۔
یہ روافض خود سے واقعات تراشتے ہیں ، اشعار گھڑتے ہیں اور انہیں امت مسلمہ کے اکابر و اشراف کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ ایسا ہی برامکہ نے بھی کیا۔ ہارون الرشید نے انہیں قریب کیا، اپنا مصاحبِ خاص بنایا لیکن انہوں نے ان احسانات کا بدلہ غدر و خیانت کی صورت میں دیا اور خلافت کو عربوں سے چھین کر عجمیوں کے ہاتھوں میں دینے کی سرتوڑ کوشش کی۔
ان برامکہ نے دھونی دینے اور بھٹی جلانے کے نام پر مساجد میں مجوسیوں کی آگ کو داخل کیا۔ ’’العواصم من القواصم ‘‘ کا مؤلف برامکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’یہ لوگ باطنیہ تھے، فلاسفہ کے عقائد رکھتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے دین اسلام کے خلاف گہری چال چلی اور مجوسیت کو دین کے نام پر حیاتِ نو بخشی، ان لوگوں نے مساجد کو دھونی دینے کی نیو ڈالی۔ اس سے قبل مساجد کو ’’خلوق‘‘[1] سے معطر کیا جاتا تھا لیکن ان لوگوں نے مساجد کو
|