جناب حسین رضی اللہ عنہ کا امت مسلمہ کی نظروں میں عقیدت و احترام پر مبنی مقام و مرتبہ، جو کتاب و سنت کی سچی پیروی پر مبنی تھا۔ ان رافضیوں کو دراصل کھٹکا اسی بات کا تھا کہ اگر امر خلافت جناب حسین رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست میں آ گیا تو یقینا وہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نہج پر ہی امر خلافت کو چلائیں گے جس میں دور دور تک بھی ان کے وجودوں کے باقی رہنے یا رکھنے کی گنجائش نظر نہ آتی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوہری چال چلی کہ ایک طرف تو خود فتنہ بھڑکایا پھر جناب حسین رضی اللہ عنہ جیسے اخیار و ابرار اکابر کی شخصیات کو اس فتنہ کو اور زیادہ بھڑکانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ یوں ان لوگوں نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کی مصیبت عظمیٰ کو جس کا پہلا سبب انھی کا مکر و غدر تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت نبویہ اور وحدت امت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔
رہے وہ نام نہاد اہل سنت جو اس بات کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ’’موروثی حکومت‘‘ کے نظام کے مؤسسِ اوّل جناب امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما تھے، تو دراصل ان لوگوں نے حالات و واقعات کا صرف ایک زاویۂ نگاہ ہی سے جائزہ لیا ہے، اسی یک طرفہ جائزے نے انہیں ایک ایسے صحابی رسول پر یہ تہمت لگانے پر ابھارا جن کی سیاست نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ روئے زمین کے سب سے ذہین ترین آدمی تھے اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد سیاسی تدبر و شعور میں سب سے زیادہ قوت و مہارت اور دسترس رکھتے تھے۔
اگر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کو امر وراثت گمان کرتے ہوتے تو انہیں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ، سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے لوگوں کو اپنی رائے میں شریک کرنے کی کیا ضرورت تھی اور انہوں نے ان اکابر کے غصہ اور سختی کو کیوں برداشت کیا اور آخر یہ سب سہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی یزید کی نامزدگی کو کیوں کافی نہ سمجھا؟ اور کیا یہی نظامِ وراثت نہیں ہوتا؟ کہ والی کسی سے بھی مشورہ یا رائے لیے بغیر اکیلے ہی اپنے ورثاء میں سے کسی ایک کو اپنے بعد کے امر کا وارث قرار دے دیتا ہے۔
پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات کے شدید متمنی کیوں تھے کہ عام قبائل عرب اور امت کے اکابر کو بھی یزید کی بیعت میں شریک کریں ؟ اور انہوں نے ہر خاص و عام، قریب اور دور کے آدمی سے اس بارے میں مشاورت کیوں کی؟ یا اس بات کو ہوا دے کر دراصل امت مسلمہ کے اکابر کی بابت بدگمانی کے زہر کو عام کر کے اعدائے صحابہ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا مقصود ہے؟ یوں اس شور و غوغا کا بدترین نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بے اوقات اٹھ کر جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف محاکمہ کرنے اور ان کے خلاف عدالت قائم کرنے بیٹھ گیا اور اس کی جرأت بے جا اس حد تک جا پہنچی کہ وہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے تئیں صحیح بات کی فہمائش کرنے لگا، حالانکہ
|