Maktaba Wahhabi

294 - 441
تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo﴾ (آل عمران: ۲۶)[1] ’’کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے، اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے، اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں آیات غور کرنے والوں کے لیے بے پناہ عبرتوں کی حامل ہیں ۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ نے ان آیات میں نگاہ غور و تدبر نہ ڈالی ہو۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جنہوں نے کتاب و سنت کے علوم کے سرچشموں سے سیرابی حاصل کی، علم کے ماحول میں آنکھ کھولی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بچپن گزارا، اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صحبت اٹھائی اور اپنے والد ماجد سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زیر تربیت پروان چڑھے، جو ایک سچے عالم ربانی اور اس بات کے بے حد حریص تھے کہ ان کی اولاد علم و عمل کی اعلیٰ ترین سطح تک جا پہنچے۔ ان سب امور کے ہوتے ہوئے بھلا یہ کیونکر گمان کیا جا سکتا ہے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ نے ان آیات کریمہ کے مقاصد و عبر میں غور نہ کیا ہو۔ تب پھر کیا ہوا؟ افسوس کہ اس موقعہ پر کوفیوں کے مکر و غدر نے آپ کو اپنی ان سازشوں میں گھیر لیا جو انہوں نے امت مسلمہ کے ائمہ و اکابر اور ابرار و اخیار کے خلاف تیار کی تھیں ، تاکہ یہ امت اپنے پیغمبر کی اس سنت سے روگرداں ہو جائے جس میں دنیا و آخرت کے سب فتنوں سے نجات اور پناہ ہے۔ غرض جب آل حسین رضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف کوچ کرنے لگے تو یزید نے آل ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے تقریباً تیس گھڑ سوار موالیوں کو ان کے ہمراہ کر دیا اور انہیں اس بات کا تاکیدی حکم دیا کہ یہ حضرات جہاں چاہیں اور جب چاہیں پڑاؤ ڈالیں ، تم لوگوں نے ان کی اثنائے طریق میں ہر قسم کی مدد و معاونت کرنی ہے۔[2] یزید نے آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ محرز بن حریث کلبی اور بہراء کے ایک آدمی کو بھی ان کے ہمراہ کیا جو اہل شام کے افاضل علماء میں سے تھے۔[3] غرض آل حسین رضی اللہ عنہما نوازشات و احترامات سے لدے دمشق سے نکلے اور مدینہ جا پہنچے۔[4]
Flag Counter