پھر یزید نے مدینہ سے بنی ہاشم اور بنی علی[1] کے موالیوں کو بلوا بھیجا، جب وہ پہنچے تو یزید نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ازواج و بنات کو سامان تیار کرنے کا حکم دیا اور ان کو ہر قسم کا زادِ راہ اور مدینہ تک کی ضروریات بہم پہنچائیں ۔[2]پھر حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کو سامان سفر تیار کرنے کا حکم دیا۔[3] جب یہ حضرات کوچ کرنے لگے تو یزید نے امام زین العابدین رحمہ اللہ کو بلوا کر کہا :
’’اگر آپ چاہیں کہ میرے ہاں ہی ٹھہر جائیں اور میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی کروں اور آپ لوگوں کا حق پہچانوں تو میں اس کے لیے تیار ہوں ۔‘‘[4]
لیکن امام زین العابدین رحمہ اللہ نے مدینہ لوٹنے کو اختیار کیا۔
غرض یزید نے اولادِ حسین رضی اللہ عنہم کو دونوں باتوں کا اختیار دیا کہ عزت و آبرو کے ساتھ اسی کے پاس ٹھہرے رہیں یا پھر احسان و اکرام کے ساتھ مدینہ لوٹ جائیں ۔ چنانچہ انہوں نے مدینہ لوٹ جانے کو اختیار کیا۔[5]
یہ حضرات جب دمشق سے مدینہ روانہ ہونے لگے تو یزید نے الوداع کہتے ہوئے ایک بار پھر عذر پیش کیا اور یہ کہا:
’’ابن مرجانہ پر خدا کی پھٹکار ہو، اللہ کی قسم! اگر حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہوتا اور وہ مجھ سے کسی بات کا سوال کرتے تو میں انہیں وہ ضرور عطا کرتا اور جہاں تک ہو سکتا انہیں ہلاکت سے بچاتا چاہے ان کی خاطر مجھے اپنی کسی اولاد کی قربانی بھی دینا پڑتی تو دریغ نہ کرتا۔ لیکن رب کی تقدیر غالب آئی۔ آپ کو جو بھی ضرورت پیش آئے مجھے لکھ بھیجا کیجیے!‘‘ [6]
ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آل حسین مدینہ روانہ ہونے لگے تو یزید نے سیّدنا علی بن حسین رحمہ اللہ سے یہ کہا:کیا تم لوگ جانتے ہو کہ کس بات نے حسین رضی اللہ عنہ کو اس اقدام پر ابھارا اور کس بات نے انہیں اس حالت میں مبتلا کیا؟ وہ بولے: نہیں ۔ تو یزید کہنے لگا: انہوں نے دراصل رب تعالیٰ کے ان ارشادات میں تدبر نہ کیا تھا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلِ الّٰلہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ
|