دوسرے اس گنہ گار مجرم کی شناخت کو امت مسلمہ پر خلط ملط کر دیا جائے جس نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکر و فریب کا ارتکاب کیا، اور اس پاکیزہ خون کے بہانے میں اپنا حصہ ڈالا۔
ان کوفیوں نے آل بیت رسول کی خواتین کی بابت جو روایات گھڑی ہیں ، وہ واقعہ کی منظر کشی کچھ یوں کرتی ہیں کہ ان پاکیزہ خواتین کو بے پردہ اور قیدی بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ حاشا و کلا کہ ان مقدس خواتین نے کسی بھی حال میں بے پردگی کو قبول کیا ہو۔ دوسرے ہم یہ بھی جانتے ہیں ایک غیور اور مومن مسلمان ایسا ہنود و یہود اور صلیبی و مجوسی خواتین کے ساتھ بھی نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ وہ آل بیت رسول کی واجب صد احترام مقدس اور نیک ترین خواتین کے ساتھ ایسی بے تہذیبی و بدسلوکی کو روا جانے … مَعَاذَ اللّٰہِ!
لیکن افسوس کہ صحت و ثاقت اور صدق و مصداقیت سے معرا یہ جعلی روایات جو کذب و بطلان کا طومار ہیں ، یہی کچھ بیان کرتی ہیں تاکہ کسی کو خود ان پر نگاہ ڈالنے کا موقعہ نہ ملے۔ جبکہ یہ جعلی اور مکذوبہ روایات ان ثابت روایات کے بھی مغایر و مخالف ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ یزید نے آل حسین کا بے حد اکرام کیا تھا۔
یزید کے اس کریمانہ سلوک کو امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ نے خوب یاد رکھا۔ چنانچہ انہوں نے زندگی بھر یزید کے ساتھ صلح قائم رکھی اور جب کوفیوں نے ایک بار پھر فتنہ کی آگ بھڑکا کر اس کے شعلوں کی لپٹوں میں جناب زین العابدین رحمہ اللہ کو گھسیٹنا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور یزید کی وفات تک اپنے کسی قول یا فعل سے یزید کے خلاف کسی کو انگیخت نہ کیا۔
تو کیا اب یہ کوفی خونِ حسین رضی اللہ عنہ پر خود ان کے فرزند ارجمند سیّدنا امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ اور ان کے چچا جناب محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے زیادہ غیرت رکھتے ہیں ؟ جنہوں نے مرتے دم تک یزید کے ساتھ اچھے تعلقات قائم و برقرار رکھے اور کسی صحیح روایت میں ان دونوں بزرگوں سے یزید کی بابت کسی قدح و تنقیص کا ثبوت نہیں ملتا اور جب تک یزید نے آل حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاں مہمان رکھا، اس نے جناب علی بن حسین رحمہ اللہ کے بنا کبھی صبح یا شام کا کھانا نہ کھایا تھا۔[1]
چنانچہ یزید سیّدنا علی بن حسین رحمہ اللہ کو بلواتا، ساتھ بٹھاتا، کھانے میں شریک کرتا، گفتگو کرتا اور ان کی
غم گساری اور دل داری کرتا تھا اور جب آل حسین رضی اللہ عنہ مدینہ کوچ کرنے لگے تو یزید نے سب ہاشمی خواتین کو بلوا کر ان سے دریافت کیا کہ اس حادثۂ فاجعہ کے دوران میں ان سے کیا کیا لے لیا گیا تھا۔ غرض جس خاتون نے جو بھی بتلایا، یزید نے اسے اس سے دوگنا دیا۔[2]
|