Maktaba Wahhabi

291 - 441
کر دیتا۔ پس اللہ حسین( رضی اللہ عنہما ) پر رحم فرمائے۔‘‘[1] اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ایسی مظلومانہ شہادت پر دل خون ہو جائیں اور پتھروں کے جگر بھی چاک ہو جائیں ۔ بھلا یزید اپنے چچیروں کی شہادت پر کیوں نہ روتا؟ اور اس کا دل اس صدمہ سے رنجور کیوں نہ ہوتا؟ جبکہ وہ جانتا تھا کہ یہ دل فگار حادثہ قریش میں افتراق کا باعث بن سکتا ہے، جن کی وحدت کا امت کی وحدت پر بے پناہ اثر ہے، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یزید کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر بڑا غم تھا اور حقیقی غم تھا اور اسے اس بات کا حقیقی ادراک تھا کہ یہ واقعہ اس کے دین و دنیا دونوں کے تباہ ہو جانے کا قوی سبب بن سکتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد جب یزید کے پاس پہنچی تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی لخت جگر اور نور نظر سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اے یزید! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں بھی قیدی بنائی جائیں گی؟ یزید نے برجستہ کہا: ہرگز نہیں بلکہ وہ تو آزاد ہیں ، عزت والیاں ہیں ۔ تم اپنی چچیری بہنوں کے پاس چلی جاؤ ، تم انہیں بھی وہی کچھ کرتے پاؤ گی جو میں کر رہا ہوں ۔ سیّدہ فاطمہ رحمہ اللہ فرماتی ہیں : ’’سو میں ان کے پاس گئی تو میں نے ساری سفیانیہ خواتین کو بس روتے ہی دیکھا۔‘‘[2] یہ روایت امت مسلمہ میں فتنہ بھڑکانے اور کینہ پھیلانے والوں کا منہ توڑ جواب ہے جو جعلی روایات کی آڑ میں دراصل ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت کی استہانت و اہانت میں لگے ہیں اور لوگوں کو بھی اس ناپاک کام پر جری کرتے ہیں ۔ چنانچہ کوفیوں نے ان مقدس خواتین کی بابت ازحد حیا باختہ باتیں تراش رکھی ہیں اور ان کو اپنے خطبوں اور ٹی وی پروگراموں میں بیان کرتے ہیں ۔ ان رافضیوں کا یہ رسوائے زمانہ رویہ ہر عاقل اور صاحب علم و فضل پر ان کے مقاصد کو آشکارا کرتا ہے کہ دراصل یہ لوگ امت مسلمہ کے دلوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت کی عظمت و ہیبت اور تقدس و احترام کو کھینچ کر نکال دینا چاہتے ہیں ۔ افسوس کہ کتاب و سنت اور ان کے سچے پیروکاروں کے خلاف یہ مذموم سازش آل بیت رسول کے دفاع کے نام پر اور ان کے غم و الم پر کی جا رہی ہے۔ تاکہ جو بھی کتاب و سنت پر عزیمت و اخلاص کے ساتھ چلنا چاہے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چل کر انہیں سعادتوں سے اپنا دامن بھرنا چاہے، اس کے خلاف شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا جائے۔[3] تاکہ ایک تو عقیدۂ توحید کے خلاف جنگ پورے زور و شور کے ساتھ جاری رہے،
Flag Counter